ہر سال کی طرح اس سال بھی موسم بہار کی آمد پر معمول کے مطابق تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ نئے جنگی آپریشن ’الفتح‘ کا آغاز کر رہے ہیں۔
اس مرتبہ شدت پسند تنظیم نے ان افغانوں کو جو سکیورٹی اداروں میں کام کر رہے ہیں خصوصی توجہ دی ہے۔ بیان کے مطابق ’الفتح‘ آپریشن کا ایک اہم حصہ دشمن کی صف سے ان ہم وطنوں کو خارج کرنا ہے، جو فوج، پولیس اور جنگجوؤں کے نام پر فوجی تشکیل میں بھرتی ہوئے ہیں اور انہیں مخالفین اپنے مفادات کے لیے لڑوا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے: ’ہم دشمن کی صف میں کھڑے فوجیوں کو ایک بار پھر بتاتے ہیں کہ بےدلیل دشمنی اور بےفائدہ جنگ سے دستبردار ہوجائیں۔‘
تاہم پورے بیان میں کہیں بھی امریکہ کے ساتھ قطر میں جاری مذاکرات کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیان محض اور محض جنگی حکمت عملی سے متعلق ہے۔
اس تازہ طالبان اعلان کے بارے میں ابھی افغان حکومت یا امریکہ کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اس تازہ آپریشن کے آغاز سے ایک روز قبل طالبان نے ریڈ کراس اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سرگرمیوں پر ’پابندی‘ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ریڈ کراس نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
طالبان کا الزام تھا کہ آئی سی آر سی (ریڈ کراس) نے اس کے ساتھ ان کے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس تنظیم پر ویکسینیشن کے دوران ’مشکوک سرگرمیوں‘ کی شکایت کی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق طالبان افغانستان کے نصف سے زائد علاقے پر ابھی بھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ پہلے ہی اپنی ایک رپورٹ میں 2018 کو افغانستان کا سب سے زیادہ جان لیوا سال قرار دے چکا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے ہلاکتوں کا ریکارڈ 2009 سے رکھنا شروی کیا ہے اس وقت سے اب تک کا 2018 سب سے زیادہ خونی سال ثابت ہوا ہے۔ اس کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال تین ہزار آٹھ سو سے زائد شہری ہلاک جبکہ سات ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اس تازہ ’الفتح‘ آپریشن کے آغاز سے تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے۔