ایران پر نئی امریکی پابندیاں یورپی بینکوں کے لیے مشکلات کا باعث؟

امریکہ کی جانب سے ایران کے معاشی نظام کو نشانہ بناتے ہوئے 18 بینکوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے یورپی بینکوں کے ایران کے ساتھ لین دین میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

ایران کے مرکزی بینک کے گورنر عبدالناصر حماتی نے ان پابندیوں کو سیاسی پروپیگنڈا قرار دے کرمسترد کر دیا ہے (فائل تصویر: ٹوئٹر)

امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت تہران کے معاشی نظام کو نشانہ بناتے ہوئے 18 بینکوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے جمعرات کو یہ اعلان امریکی صدارتی انتخابات سے چند ہفتے قبل کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ ’ان پابندیوں کے تحت ایران میں زرعی مصنوعات، خوراک، ادویات، طبی آلات کی فروخت پر پابندی نہیں ہو گی‘ لیکن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے مطابق امریکی پابندیاں ایران کے کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا: ’امریکی حکومت ادویات خریدنے کی ادائیگیاں کرنے کے ہمارے بقایا راستوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے عوام کو بھوکا رکھنا انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے۔‘

ایران کے مرکزی بینک کے گورنر عبدالناصر حماتی نے ان پابندیوں کو سیاسی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے اثرات جزوی ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بجائے معاشی اثرات کے ان امریکی پابندیوں کا مقصد امریکہ میں ان کا سیاسی استعمال ہے جو کہ امریکی رہنماؤں کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے دعووں کو جعلی ثابت کرتا ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق مزید پابندیاں یورپی بینکوں کے ایران کے ساتھ لین دین میں رکاوٹیں حائل کر سکتی ہیں اور ان سے انسانی بنیادوں پر کیا جانے والا لین دین بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھنک ٹینک سینٹر فار نیو امیریکن سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار الزبتھ روزن برگ کا کہنا ہے کہ ’یہ یورپیوں کے چہرے پر ایک گھونسے جیسا ہے۔ ہم اس سے بہت زیادہ کر رہے ہیں جو امریکیوں کے مطابق ایران کے ساتھ انسانی امداد اور انسانی بنیادوں پر ہونے والی تجارت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ کسی مستقبل کے صدر کے لیے مشکل بنا رہے ہیں کہ وہ ان اقدامات کو واپس لے کر جوہری سفارت کاری کا آغاز کر سکے۔‘

ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نائب صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں وہ امریکی انتخابات میں فتح کی صورت میں ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان 2018 سے کشیدگی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جب صدر ٹرمپ نے 2015 میں ایران کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا