ایران پر نئی امریکی پابندیاں، اعلیٰ قیادت کے اربوں ڈالرز کے اثاثے متاثر

امریکہ نے جاسوس ڈرون گرانے پر ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای، وزیر خارجہ اور عسکری قیادت پر مالی پابندیاں عائد کر دیں۔

نئی امریکی پابندیوں کے مالی اثرات ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنی اور ان کے ساتھیوں پر بھی پڑیں گے (اے ایف پی)

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے تہران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔

اس آرڈر کے جاری ہونے کے مالی اثرات ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنی اور ان کے ساتھیوں پر بھی پڑیں گے۔

ٹرمپ کہتے ہیں ایران کی ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی روکنے کیے لیے اور امریکی ڈرون طیارے کو گرانے کے بعد یہ قدم ضروری تھا۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ ان پابندیوں کے ایران پر کیا اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ایران عموماً دنیا بھر میں امریکہ کے زیر کنٹرول گلوبل بزنس اور مالیاتی چینلز سے ہٹ کر کام کرتا ہے۔

ٹرمپ نے پیر کو اوول دفتر میں کہا: ’ہم تہران پر دباؤ بڑھاتے رہیں گے اور انہیں ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے‘۔

ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں زور دے کر کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ عسکری تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتی۔ ’ہم ایران سمیت کسی ملک سے تنازع نہیں چاہتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر ایران کے ساتھ جاری کشیدگی میں فوج کو کردار دیا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں ہم نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہم ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ ایران کا مستقبل تابناک ہے‘۔

دوسری جانب، امریکی سیکریٹری خزانہ سٹیون نوچن کہتے ہیں کہ پابندیوں کا ہدف خاص طور پر ایران کی وہ عسکری قیادت ہے، جس نے پچھلے دنوں امریکی جاسوسی ڈرون طیارہ گرایا۔

نوچن نے وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں بتایا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور خامنہ ای بھی پابندیوں کا شکار ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا: ’موجودہ پابندیوں کے علاوہ ہم نے ایرانی سپریم رہنما کے دفتر کو بھی ہدف بنایا ہے جس کی وجہ سے اربوں ڈالرز کے اثاثے متاثر ہوں گے۔‘

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’امریکہ کے پابندیوں کے اہداف ختم ہو چکے ہیں۔ کیا ٹرمپ کے پاس کوئی نئی پابندی بچی ہے جو اب تک انہوں نے ایرانی عوام پر عائد نہیں کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ٹرمپ نے انفرادی شخصیات اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرکے معاشی دہشت گردی اور ہمارے خلاف معاشی جنگ شروع کی۔ وہ اب تک اپنے تئیں سب کچھ کر چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں در حقیقت پروپیگنڈا ہیں اور ان سے انہیں کامیابی کا احساس ہوتا ہے۔ ’مجھے حقیقتاً نہیں پتہ کہ اب اور کس قسم کی معاشی پابندیاں لگانی باقی ہیں۔ انہیں مزید نئی پابندیاں لگانے دیں ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے‘۔

قیاس کیا جارہا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے خلاف مالی پابندیاں بھی زیادہ پُر اثر نہیں ہوں گی کیونکہ عام خیال ہے کہ ان کے غیر ملکی اثاثے نہیں اور نہ ہی وہ امیر سمجھے جاتے ہیں۔

امریکہ ایران تنازع — ایک جائزہ

طویل عرصے سے چلی آنے والی امریکہ ایران دشمنی کی برف سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما کے دور میں 2015 میں عالمی طاقتوں اور ایران  کے درمیان ہونے والے تاریخی ایٹمی معاہدے کی بدولت پگھلی تھی۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  اقتدار میں آنے کے بعد مشکل سے ہونے والا یہ ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یکطرفہ طور پر اس سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب ایران کی جانب سے امریکی ڈرون مار گرانے کے واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کیسے رہے، آئیے نظر دوڑاتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 21 مئی 2017 کو سعودی عرب میں مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں سے اہم خطاب میں کہا تھا کہ ایران کو تنہا کرنے کے لیے مل کر کام کیا جائے تاکہ ایرانی حکومت کو قیام امن کے عمل میں شریک ہونے پر رضامند کیا جا سکے۔

امریکی صدر نے کہا: ’ایران، لبنان سے لے کر یمن اور عراق تک دہشت گردوں، عسکریت پسندوں اور دوسرے انتہاپسند گروپوں کو رقوم، ہتھیار اور تربیت دے رہا جو علاقے میں لاقانونیت اور تباہی پھیلا رہے ہیں۔ ‘

بعدازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 ستمبر 2017 کو اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’ایرانی حکومت نے بھرپور ثقافت کے حامل اور مالی طور پر مستحکم اپنے ملک کو معاشی طور پر تباہ حال اور بدمعاش ریاست میں تبدیل کر دیا ہے جس کی بڑی برآمدات میں تشدد، خون خرابہ اور لاقانونیت شامل ہیں۔‘

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے سے خود کو الگ کرتے ہوئے معاہدے کو مکمل طور ناقص قرار دیا تھا۔ ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد امریکہ کی جانب سے ایران اور اس کے ساتھ تعلقات رکھنے والی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ ساتھ ہی امریکی حکومت نے دوسرے ملکوں کو خبردار کیا کہ وہ ایران میں سرمایہ کاری اور اس کے ساتھ تجارت ختم کر دیں۔ ایران سے تیل کی خریداری بند کر دی جائے اور ایسا نہ کرنے والے ملک کو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سات اگست 2018 کو امریکہ نے ایران پر نئی پابندی عائد کردیں جن میں مالیاتی لین دین منجمد کرنا، خام مال کی درآمد کا خاتمہ اور کاروں اور تجارتی ہوا بازی کے شعبے میں خریداریوں پر جرمانہ شامل تھا۔

نئی امریکی پابندیاں پانچ نومبر 2018 سے نافذ العمل ہوئیں جنہیں امریکی حکومت نے اب تک کی سب سے سخت پابندیاں قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آٹھ اپریل 2019 کو امریکہ نے ایرانی پاسداران انقلاب فورس کو دہشت گرد قرارتنظیم قرار دے دیا۔ پاسدران انقلاب کی زیر نگرانی بیرون ملک متحرک القدس فورس کو بھی بلیک لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ جواب میں ایران نے امریکہ کو دہشت گردی کا سرپرست اور علاقے میں موجود اس کی فوجوں کو دہشت گرد گروپ قرار دے دیا۔

22 اپریل 2019 کو امریکی صدر نے وہ استثنیٰ بھی ختم کردیا جس کے تحت آٹھ ملکوں کو یک طرفہ امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کیے بغیر ایران سے تیل خریدنے کی اجازت تھی۔

دو ہفتے کے بعد آٹھ مئی کو ایران نے کہا کہ وہ ایٹمی معاہدے کے تحت کچھ وعدوں پرعملدرآمد معطل کر رہا ہے۔ ایران کے مطابق کچھ وعدوں پر عملدرآمد فوری طور پر جبکہ امریکی پابندیاں نرم نہ ہونے کی صورت میں کچھ وعدوں پر 60 دن کے بعد عملدرآمد روک دیا جائے گا۔ ان وعدوں میں یورنیم کی خاص سطح تک افزودگی اور اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹرمیں وہ تبدیلیاں نہ کرنا شامل ہے جن سے ضمنی پیداوار کے طور پر پلوٹونیم تیار کی جا سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے فولاد اور کان کنی کے شعبوں کے لیے بھی نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

12 مئی 2019 کو متحدہ عرب امارات کے سمندر میں سعودی عرب کے دو تیل بردار بحری جہازوں اور دو دوسرے بحری جہازوں کو پراسرار ’دہشت گردانہ‘ حملوں میں نقصان پہنچا۔ امریکی اور سعودی حکومت نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا۔

مئی کے شروع میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں مزید فوج تعینات کردی اور ایران پر الزام لگایا کہ وہ امریکی مفادات پر ’ناگزیر‘ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ 13 جون کو خلیج عمان میں دو آئل ٹینکروں پر حملہ کیا گیا۔ اس حوالے سے امریکی صدر نے کہا کہ اس حملے پر ہر جگہ ایران کا نام لکھا ہوا ہے، تاہم ایران نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی۔

20 جون کو ایران کے پاسداران انقلاب نے آبنائے ہرمز کے قریب ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والا امریکی جاسوس ڈرون مار گرایا۔ امریکی وزارت دفاع نے ڈرون کے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہونے کی تردید کی۔ صدر ٹرمپ کے مطابق اگلے روز امریکا نے ڈرون گرانے کے جواب میں ایران پر حملے کی تیاری کرلی تھی لیکن پھر انہوں نے یہ حکم واپس لے لیا کیونکہ یہ ایرانی کارروائی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

اور اب 24 جون 2019 کو امریکا نے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای اور اعلیٰ فوجی افسروں پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ امریکی پابندیوں کا مقصد ایران کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو ہدف بنانا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ