ہتھراس گینگ ریپ، دو ڈاکٹروں کی برطرفی: ’ہمیں دباؤ پر نکالا گیا‘

ہتھراس ریپ کیس میں ہسپتال سے نکالے جانے والے ڈاکٹر عظیم اور ڈاکٹر عبید کا موقف تھا کہ پہلے پولیس تحقیقات کر رہی تھی، اب سی بی آئی تحقیق کر رہی ہے، اسی لیے ہمیں برطرف کیا گیا۔

(دی انڈپینڈنٹ)

بھارت میں  ان دو سینئیر ڈاکٹروں کو برطرف کر دیا گیا ہے جن میں سے ایک نے نچلی ذات کی ایک عورت کے گینگ ریپ اور قتل کے موقف کی نفی کی تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ 

اتر پردیش میں پولیس نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ ہتھراس میں ہونے والے اس حملے کی 19 سالہ شکار خاتون سے ریپ کیا گیا تھا۔ خاتون کا فورنزک ٹیسٹ واقعے کے 11 دن بعد ہوا تھا۔

یہ خاتون 29 ستمبر کو دہلی کے ایک ہسپتال میں اس واقعے کے پندرہ دن بعد دنیا سے چلی گئی تھیں۔ 

اونچی ذات کے چار مردوں کو قتل اور مبینہ گینگ ریپ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ خاتون جن کی شناخت عام نہیں کی گئی دلِت کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھیں جو ہندو ذات کے نظام میں سب سے کم تر مانی جاتی ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کیس نے بھارت میں اب بھی ذات کی بنیاد پر موجود ظلم و ستم کی جانب توجہ دلائی ہے۔ 

اس واقعے کے بعد ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے خلاف نچلی ذات کے لوگوں کے تحفظ میں ناکامی پر مظاہرے ہوئے تھے۔

پولیس پر بھی اس مقدمے کی ابتدا میں غلط ہینڈلنگ کی وجہ سے تنقید ہوئی تھی۔

متاثرہ خاندان کی رضامندی یا موجودگی کے بغیر میت کا جلایا جانا اور مظاہرین کے ساتھ ان کا سخت رویہ بھی اس تنقید کا سبب بنا۔ 

برطرف کیے جانے والے ڈاکٹر اترپردیش کے اس ہسپتال میں سینیئر میڈیکل آفیسرز تھے جہاں ہتھراس کی خاتون کا 14 روز کے لیے علاج ہوا تھا۔

ان میں سے ایک نے بھارتی اخبار انڈین ایکپسریس کو 5 اکتوبر کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تاخیر سے لیے جانے والے فورنزک نمونے تحقیقات میں مددگار نہیں ثابت ہوئے تھے۔ 

جواہر لعل میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کے میڈیکل افسر ڈاکٹر محمد عظیم الدین ملک جہاں یہ ٹیسٹ ہوئے تھے کہا کہ سرکاری ہدایات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ کسی واقعے کے محض 96 گھنٹے کے اندر فورنزک ثبوت موثر ہوتے ہیں۔ 

ڈاکٹر عظیم کا بیان ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار کے موقف کی نفی کرتا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں سپرم کے کوئی آثار نہیں ملے جو ثابت کرتا ہے کہ کوئی جنسی زیادتی نہیں ہوئی تھی۔ 

ڈاکٹر عظیم کو ان کے ساتھی اور شعبہ حادثات میں کام کرنے والے ڈاکٹر عبید امتیاز الحق کے ساتھ برطرف کر دیا گیا۔ 

دونوں کو 20 اکتوبر کو ارجنٹ نوٹس جاری کیے گئے جن میں کہا گیا کہ ان کی خدمات مزید درکار نہیں ہیں۔ ان نوٹس میں جو دا انڈپینڈنٹ نے بھی دیکھے ہیں چیف میڈیکل افسر کی جانب سے ہیں تاہم اس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق محمود کی جانب سے ’ٹیلیفون‘ کے ذریعے موصول ہوئے تھے۔ 

دا انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے دونوں ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں ہائی پروفائل ہتھراس واقعے کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ڈاکٹر عظیم کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال کی انتظامیہ دباؤ میں تھی۔ تحقیقات اس سے قبل ریاستی پولیس کر رہی تھی، وہ ہمارے خلاف قدم نہیں اٹھا سکے۔ لیکن اب جبکہ اس واقعے کی تحقیقات کوئی اور کر رہا ہے (وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، سی بی آئی) اس وجہ سے ان کو برطرف کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔‘ 

ڈاکٹر عظیم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کی ان کے بیان اور اس واقعے میں دلچسپی کی وجہ سے برطرف کیا گیا۔ ’مجھے اس کے علاوہ کوئی دوسری وجہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔‘ 

 ڈاکٹر عبید کا کہنا تھا کہ وہ برے کی توقع کر رہے تھے۔ ’ہمیں اس کا علم ایک ہفتے سے تھا۔ ہمارے سی ایم او انچارج کو فون کالز موصول ہو رہی تھی کہ ہمارے بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے۔‘ 

ڈاکٹر عبید نے میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ہے تاہم ان کا نام 3 اکتوبر کی رپورٹ میں آیا تھا جس میں پولیس کے ریپ نہ ہونے کے دعوی پر سوال اٹھائے تھے۔ یہ خبر ہسپتال میں تیار اور ذاکٹر عبید کی تصدیق سے جاری رپورٹ کی بنیاد پر تھی۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے بیان کے نتیجے میں مستقبل میں ان پر اپنی رائے کے اظہار سے منع کیا جاسکتا ہے، تو یہ ڈاکٹرز باغی تھے۔

ڈاکٹر عبید نے کہا کہ ’انہوں نے صرف ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میری رائے پوچھی تھی۔ اور میں مستقبل میں اسے دوبارہ دوں گا۔ میں نے کا حلف اٹھایا ہے ۔ میں نے صرف ایک ملازمت کھوئی ہے۔ مجھے دوسری مل جائے گی۔ اس ظلم کے شکار خاندان کے مقابلے میں میرا نقصان کچھ بھی نہیں ہے۔‘ 

یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے دی انڈپینڈنٹ کی طرف سے تبصرہ کے لیے رابطہ پر فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا