او آئی سی اور خواتین کی بااختیاری

او آئی سی نے اسلامی دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ان کی الگ خودمختار انجمن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فلسطینی خواتین الآقصی میں کرونا کی وجہ سے بندش کے بعد دوبارہ کھلنے پر عبادت کر رہی ہیں (اے ایف پی)

اکتوبر خواتین کی صحت اور بالخصوص چھاتی کے سرطان سے محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور آگاہی مہم کے حوالے سے ممتاز مقام رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کی خواتین کے لیے اسی مہینے میں ایک اور خوشخبری سامنے آئی ہے۔ اس خوشخبری کا مرکز اور منبع مسلم دنیا کی سب سے بڑی نمائندہ انجمن، اسلامی تعاون تنظیم [او آئی سی] ہے۔

او آئی سی نے اسلامی دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ان کی الگ خودمختار انجمن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ او آئی سی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یوسف بن العثیمین کے مطابق رواں برس اگست میں او آئی سی ویمن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن [ڈبلیو ڈی او] سے متعلق دستاویز کی توثیق کے بعد اسے روبعمل لایا جا رہا ہے جس کے بعد مخصوص مینڈیٹ کی حامل نوزائیدہ تنظیم کی سرگرمیوں کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں او آئی سی کے کردار کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ شنید ہے کہ رواں ہفتے منعقد ہونے والے ڈبلیو ڈی او کونسل کے اجلاس میں تنطیم کے اندرونی ڈھانچے اور قواعد وضوابط پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

ڈبلیو ڈی او کا قیام 2009 میں او آئی سی کے وزرا خارجہ کے اجلاس میں طے پانے والے فیصلوں کا مرہون منت ہے۔ اس اجلاس میں قرار پایا تھا کہ اسلامی ملکوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم کی صفوں تشکیل پانے والی مخصوص مینڈیٹ کی حامل تنظیم کا صدر دفتر قاہرہ میں ہو گا۔

تنظیم کے قیام سے متعلق بنیادی دستاویز 2010 میں تیار کی گئی۔ اس وقت سے او آئی سی نے میزبان ملک مصر کے ساتھ مل کر توثیق کے لیے بھرپور تحریک چلائی، لیکن اس مدت کے دوران عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے باعث کام کی رفتار تیز نہ ہو سکی۔

اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں بالخصوص حالیہ صدر نشین سعودی عرب نے ڈبلیو ڈی او کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس کے قیام کے لیے مطلوبہ حمایت اور جوش وجذبہ دکھایا تاکہ خواتین حقوق کو درپیش مشترکہ چیلنج کا کامیابی سے دفاع کیا جا سکے۔ یقیناً اسلام میں بھی خواتین اور معاشرے میں بہتری کے لیے ان کے کردار اور تجربات سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا گیا ہے۔

ڈبلیو ڈی او خواتین کی ترقی سے متعلق ایسے منصوبے اور پرگروام ترتیب دے گی جو او آئی سی کے وضع کردہ رہنما اصول اور فیصلوں کو روبعمل لانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ تنظیم، خواتین کی صلاحیت کار بڑھانے کے لیے کورسز، ورکشاپس اور پروگراموں کا انعقاد کرے گی۔ اس کے علاوہ معاشرے میں خواتین کے کردار کو نمایاں کرنے سے متعلق تحقیقی منصوبوں پر کام بھی ڈبلیو ڈی او کے پلیٹ فارم سے سرانجام دیے جائیں گے تا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

مسلم دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق گذشتہ برس قاہرہ میں وزرا کی سطح پر ہونے والی غیر رسمی مشاورت میں چند موضوعات کی نشاندہی کی گئی جن پر تنظیم اپنی تشکیل کے بعد کام شروع کرے گی۔ ان موضوعات میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں خواتین کا کردار، خواتین قیادت اور فیصلہ سازی، خواتین کو تمام قسم کے تشدد سے تحفظ فراہم کرنا، خواتین کی معاشی خود مختاری اور اقتصادی معاملات میں ان کی عملی شرکت شامل ہیں۔

دور حاضر میں کم وبیش تمام معاشرے انتہا پسندی کے ناسور کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اس چیلنج کے مقابلہ کی حکمت عملی تیار کرنے سے لے کر اسے عملی جامہ پہنانے کے ہر مرحلے پر خواتین کی شمولیت ضروری ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں کئی وجوہات کی بنا پر خواتین کو ہمنوا بنانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ داعش کی ’جہادی دلہنیں‘ اس کی تازہ مثال ہیں۔

خواتین کو معاشرتی، سیاسی، معاشی، نظریاتی وجوہات کی بنا پر دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ دینے پر قائل کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی جانب میلان کی وجوہات تمام خواتیں میں یکساں نہیں، اس لیے تمام ملکوں کے لیے کسی یکساں پالیسی کی تشکیل یقیناً مشکل امر ہو گا اور نہ ہی ایسی پالیسی کا اطلاق تمام ملکوں پر یکساں طور پر کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر خطے کی مخصوص سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی رنگا رنگی کو سامنے رکھ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب کچھ اقدامات اور پالیسیاں ایسی ہیں جن پر تمام ملک بآسانی راضی ہو سکتے ہیں۔ وہ امور جن پر اتقاق رائے پایا جاتا ہے ان میں سرفہرست خواتین میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا داعیہ ایسی بات ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ اگر موازنہ کیا جائے تو بعض اوقات خواتین، مردوں کی نسبت زیادہ دہشت گردی کی جانب مائل ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید برآں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے والے حلقوں کا دائرہ خواتین تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اہل خاندان بالخصوص بچوں میں دہشت گردی کے جراثیم ظاہر ہوتے دیکھ کر خاموش تماشائی بننے کے لیے انہیں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین کو دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق پالیسیوں، قوانین، منصوبوں، تحقیق اور سب سے بڑھ روبعمل لانے والے اقدامات کے بارے آگاہی دینا انتہائی ضروری ہے۔یہ کام اسلامی ملکوں اور غیر اسلامی ملکوں کی تخصیص کے بغیر کیا جانا ضروری ہے۔

او آئی سی کے رکن ملکوں میں خواتین کو فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرنے کے رحجان میں حوصلہ افزا پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہر لمحہ موجود رہتی ہے۔ او آئی سی کی صدارت اس وقت سعودی عرب کے پاس ہے اور  مملکت نے امریکہ اور ناروے میں شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان، اور اَمال یحییٰ المعلمی کو علی الترتیب اپنی سفیر مقرر کر کے فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کا عملی ثبوت دیا ہے۔

سعودی فرمانروا نے اپنے حالیہ شاہی فرمان کے ذریعے معروف دانشور خاتون اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حنان بنت عبدالرحیم الاحمدی کو مملکت کی شوریٰ کونسل کی اسسٹنٹ چیئرمین مقرر کیا۔ ڈاکٹر حنان مجلس شوریٰ میں تیسرا اہم عہدہ پانے والی پہلی سعودی خاتون ہوں گی۔ یاسمین محمد المیمانی سعودی عرب میں تجارتی پروازیں اڑانے والی پہلی خاتون پائیلٹ بن گئی ہیں۔سعودی عرب کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے انہیں چھے سال قبل تجارتی ہوا بازی کے لیے لائسنس جاری کیا تھا۔

سعودی عرب کے شاہی محافظ دستے میں خواتین اہلکاروں کو بھی شامل کر کے ایک اور سنگ میل عبور کیا جا چکا ہے۔یہ پیش رفت اس امر کی عکاس ہے کہ سعودی خواتین اب زندگی کے مختلف شعبوں میں فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں۔ خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھ کر انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے انہیں کسی بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

بدقسمتی سے ہماری بچیاں اور خواتین اب بھی زیادتی اور گھریلو تشدد کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ تنازعات کے شکار علاقوں میں خواتین انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ خواتین کو بعض ملکوں میں کم سنی کی شادی، عزت کے نام پر قتل اور جبری ختنہ جیسی تکلیف دہ آزمائشوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ان سے روا رکھے جانے والے سلوک کی بنیادی وجہ خاموشی سے سب برداشت کرنے کی روش ہے جسے معاشرتی دباؤ سمیت مختلف حیلوں بہانوں سے جواز فراہم کیا جاتا ہے۔

ایسی صورت حال میں بہتری کے لیے ججوں، مذہبی رہنماؤں، سکیورٹی حکام کا کردار انتہائی اہم ہے۔ معاشی خود مختاری اور مالیاتی شعبوں میں شرکت کو پبلک سیکٹر، سول سوسائٹی انجمنوں اور پرائیویٹ سیکٹر، جامعات، تحقیقی مراکز اور ذرائع ابلاغ کے درمیان شراکت سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان، اسلامی تعاون تنظیم کا ایک سرگرم رکن ہے۔ اسے چاہیے کہ ’پیغام پاکستان‘ اور  پھر ’دختران پاکستان‘ کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی امت کے متفقہ علیہ موقف کو دوسرے اسلامی ملکوں تک پہنچانے کے لیے ڈبلیو ڈی او کے فورم کو کماحقہ استعمال کرے۔

اسلامی تعاون تنظیم کی اس نئی انجمن سے یقیناً بہت سی توقعات ہیں کہ وہ خواتین کو درپیش مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مددگار ہو گی تاکہ خواتین کی صلاحیتوں سے کما حقہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔

کرونا وائرس بحران سے خواتین کے معاشی اور معاشرتی مسائل دو چند ہو گئے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم جیسا بنیادی حقوق بھی عالمی وبا کی نظر ہونے کا اندیشہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

او آئی سی کی اس نوزائیدہ تنظیم کو اپنے مقاصد میں کامیابی دلانے کی خاطر ضروری وسائل اور صلاحتیوں کی فراہمی سے بڑھ کر بھرپور سیاسی عزم کی ضرورت ہے اور سعودی عرب کی سربراہی میں تنظیم کو یہ سیاسی عزم ہمہ وقت رہنمائی کے لیے حاضر و موجود ملے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ