ٹرولنگ کے باوجود بھارتی جوڑا ہنی مون کی تصاویر نہیں ہٹائے گا

بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک نوجوان جوڑے نے اپنے ہنی مون کی تصاویر آن لائن شیئر کیں تو انہیں ’باڈی شیمنگ، گالیوں اور نسل پرستی‘ سے بھرے کامنٹس کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ تصاویر نہیں ہٹائیں گے۔

 روشی کارتھیکیان نے گذشتہ ستمبر میں  لکشمی سے شادی کی لیکن کرونا کے پیش نظر عائد پابندیوں کی وجہ سے  بڑی تقریب کا اہتمام نہ کر سکے (روشی کارتھیکیان/ انسٹاگرام)

سوشل میڈیا پر اپنے ہنی مون کی تصاویر شیئر کرنے کے بعد جنوبی بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جوڑے کو آن لائن مورل پولیسنگ (اخلاقی درس) کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

سیلز کے شعبے میں کام کرنے والے روشی کارتھیکیان نے گذشتہ ستمبر میں لکشمی سے شادی کی لیکن کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر عائد پابندیوں کی وجہ سے کسی بڑی تقریب کا اہتمام نہ کر سکے جس کا انہوں نے ابتدا میں منصوبہ بنایا تھا۔

جوڑے کو خود شادی کی تقریب محدود رکھنی پڑی۔ اسی وجہ سے جوڑے نے شادی کے بعد ایک پرکشش ہنی مون فوٹوشوٹ کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے پیشہ ور فوٹوگرافر کی خدمات حاصل کیں۔

بھارت میں شادی سے پہلے اور بعد کے پرکشش فوٹو شوٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس جوڑے نے مزید آگے بڑھتے ہوئے سفید چادریں اوڑھ کر ویگامن کے علاقے میں چائے کے باغ میں تصویریں بنوانے کا فیصلہ کیا۔جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ 

کارتھیکیان نے’دی انڈنپینڈنٹ‘ کو بتایا: ’ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم اپنی نہایت قریبی اور ذاتی تصاویر بنوائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوڑے کو معلوم نہیں تھا کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے۔ جوڑے نے تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کر دیں جن میں ان کی شادی کی تصویریں بھی شامل تھیں۔

تاہم فیس بک پر شیئر کیے جانے کے بعد تصاویر فوری طور پر وائرل ہو گئیں اور بڑے پیمانے پر ٹرولنگ، برا بھلا کہنے اور ناشائستہ تبصروں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

بعض افراد نے اس قربت پر اعتراض کیا جو تصاویر میں دکھائی گئی ہے اور جوڑے کے لباس پر سوالات اٹھائے۔ کمنٹس کرنے والوں نے سوال کیا کہ انہوں نے چادروں کے نیچے کچھ پہن رکھا ہے؟ اور ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے قدامت پسند بھارتی معاشرے کو بھلا دیا۔

روشی نے اندازہ لگایا کہ تصاویر پر تقریباً 80 فیصد ردعمل منفی تھا۔ انہوں نے کہا یہ ردعمل ’باڈی شیمنگ (جسم کا مذاق اڑانا)، گالیوں اور نسل پرستی‘ پر مبنی تھا۔

جوڑے نے کہا کہ آن لائن ظاہر کیے ردعمل نے انہیں اور ان کے خاندانوں کو بہت متاثر کیا ہے لیکن اس کے اور مسلسل ہونے والی ٹرولنگ کے باجود انہوں نے تصویریں ہٹانے سے انکار کر دیا۔

لکشمی کارتھیکیان نے ’بی بی سی نیوز‘ سے بات چیت میں کہا: ’ابتدا میں ہمارے والدین کو بھی دھچکہ لگا۔ لیکن ہم نے ان پر واضح کیا کہ ہم ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے اور بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے ہماری بڑی حمایت کی۔ لیکن ہمارے بہت سے رشتہ داروں نے ہم پر مغرب کی نقل کرنے کا الزام لگایا۔‘

انہوں نے سوشل میڈیا سے تصاویرنہ ہٹانے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا: ’اگر ہم نے ایسا کیا وہ سمجھیں کہ ہم نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے یعنی ہم نے کوئی غلط کام کیا۔‘

جوڑے کا اصرار ہے کہ ردعمل ضرورت سے زیادہ تھا۔ لکشمی نے مزید کہا: ’ہم نے نیچے کپڑے بھی پہن رکھے تھے۔‘

تاہم تمام ردعمل ہی برا نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے جوڑے کے حوصلے کو سراہا ہے اور وہ اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کریں اس معاملے میں انہیں ہدایات جاری کرنے کی کوشش پر ٹرولز کا جواب دیا ہے۔

لیکن کارتھیکیان جوڑے نے خود کہا ہے کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آن لائن لوگ کیا سوچتے ہیں اور وہ اپنی باقی شادی شدہ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل