کیا ہم فرانس کی انتہا پسندی پر تنقید میں حق بجانب ہیں؟

حالیہ واقعات کے پیش نظر امت مسلمہ کی سخت دل آزاری ہوئی ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

*فرانس کے صدر میکروں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر کہا کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے اور میں آزادی اظہار کے ساتھ کھڑا ہوں(اے ایف پی)

میں بات کا آغاز کچھ عرصہ قبل ہونے والے ایک واقعے سے کروں گا۔ امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں ایک تقریب کے موقع پر شام سے تعلق رکھنے والی لبرل فاشسٹ ڈاکٹر وفا سلطان نے کہا تھا: ’دنیا بھر کے مسلمانوں کو روشن خیال بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام کے توہین آمیز کارٹون بار بار شائع کیے جائیں اور جب مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرنا چھوڑ دیں گے تو تب ہمیں یقین ہوجائے گا کہ وہ ماڈرن ہو چکے ہیں۔‘

مشرق وسطیٰ میں اسی روشن خیالی اور ماڈرنزم سے متعلق مؤثر آواز سمجھے جانے پر موصوفہ کو ’نیوز ویک‘ نے پہلی بار سال 2006 کی سب سے طاقتور شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر وفا سلطان پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور مصنفہ ہیں۔ انہوں نے A God Who Hates کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے اور یہ اسلام کی سب سے بڑی ناقد سمجھی جاتی ہیں۔

فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر خاکوں کی اشاعت کر کے ڈاکٹر وفا سلطان کے انتہا پسندانہ تعصب کو آشکار کر دیا۔

حالیہ واقعات کے پیش نظر امت مسلمہ کی سخت دل آزاری ہوئی ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ فعل صرف اخبار یا چند شخصیات کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ یہ عمل ریاست نے مل کر انجام دیا، جس کی تصدیق خود صدر میکروں نے کی حالانکہ یہاں مسیحیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50 لاکھ سے بھی زائد ہے۔

میکروں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر کہا کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے اور میں آزادی اظہار کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہ سب میکروں اس لیے کر رہے ہیں کہ نمبر ایک: وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ فرانس ایک سیکولر ریاست ہے اور یہاں ہر قسم کی آزادی ہے اور نمبر دو: وہ ان چیزوں کو زیربحث لانا چاہتے ہیں۔ وہیں ان کے اپنے ملک میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے تک پابندی لگا دی گئی جو ان کو نظر نہیں آتی۔

رہی بات زیربحث کی تو کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس طرح انتہا پسندی کی بجائے مدلل انداز میں ان چیزوں پر بحث کی جائے کیونکہ نہ سارے ہم سچے ہیں اور نہ سارے وہ جھوٹے ہیں۔

ایران کے ایک اخبار روزنامہ وطن امروز نے فرانس کو اسی کی زبان میں جواب دیتے ہوئے پیرس کا شیطان کے عنوان سے میکروں کا خاکہ شائع کیا تو یورپ میں اس کارٹون کے بارے میں جیسے آگ پھیل گئی۔ فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے ردعمل میں مسلم ممالک میں ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بعد فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں بائیکاٹ اور احتجاج کی کال بےبنیاد ہے۔

فرانسیسی وزارت خارجہ کے مطابق یہ تمام اقدامات ایک بنیاد پرست اقلیت کے اشاروں پر اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ فرانسیسی حکومت نے کہا کہ اس نے اپنے اتحادی ممالک کو ان کا موقف واضح کرنے کے لیے سفارتی ذرائع کی مدد حاصل کی ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی تنظیمیں فرانس کے اس عمل پر خاموش ہیں۔ حالانکہ یو این چارٹر میں واضح طور ایسی باتوں کی ممانعت کی گئی ہے۔ جو کچھ فرانس میں ہو رہا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی واضح طور پر خلاف ورزی ہے جس پر عالمی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

یہاں پر میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے سے کسی کے احساسات مجروح نہ ہوں۔

مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) مسلم دنیا کو بظاہر اکھٹا نہ کر سکی، جس کی اصل وجہ مسلم ممالک کی گروہ بندیاں اور طاقتور ملکوں کے سربراہان کی منافقانہ پالیساں ہیں۔ اسی لیے آج اسلامی دنیا کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو مسلم دنیا کو متحد کرسکے نہ کہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو قربان کر دے۔

دین اسلام کی آڑ میں کفر کے جھوٹے فتوے لگا کر مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کی جہد اور دین حق کی مخالفت میں نام نہاد روشن خیالی یا سیکولرزم کے نام پر دین اسلام پر دشنام طرازیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے باشعور انسانوں کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں پر ہمیں بھی اپنے انداز پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم صرف اپنے ملک کی بات کریں تو یہاں آئے روز سندھ میں مندر میں رکھے بت توڑنے کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں اور اقلیتوں خاص کر احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں، انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ حالیہ واقعہ ہی دیکھ لیں کہ خوشاب میں ایک سکیورٹی گارڈ نے احمدی ہونے کے الزام میں بینک کے مینیجر پر فائر کھول دیئے۔ اس سے قبل پشاور میں بھی احمدی ہونے کے الزام میں ایک پروفیسر کو قتل کر دیا گیا تھا۔

کیا ہم میں سے کوئی اس افسوس ناک انسانیت کے قتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا؟ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ اس ریاست کے باشندے ایک برابر ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں واقعی اکثریت اور اقلیت کو برابر حقوق حاصل ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب نفی میں ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم فرانس کی انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہیں؟

ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر کا بغض نکال کر سوچنا ہوگا اور اپنے ملک کی تمام اقلیتوں کو وہ حقوق دینے ہوں گے جو انہیں چاہییں اور جس کی اجازت آئین پاکستان انہیں دیتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ قائد اعظم محمد علی جناح کر کے گئے تھے۔

 اختلاف رائے ازل سے ابد تک رہے گا۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ دنیا بھر کے انسان تو کیا باقی چیزیں بھی ایک جیسی نہیں۔ ہم اس سے کیوں نہیں سبق سیکھتے۔ ایک اور بات ہم ہر دوسرے بندے کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ میں انگریزی میں اکثر کہتا ہوں.

‘We don't have empathy because of self-righteousness’

یعنی ہمیں زعم ہے کہ ہم ہی ٹھیک ہیں اور باقی سارے لوگ غلط ہیں۔

اصل مسئلہ عدم برداشت ہے جو نہ صرف مذہبی انتہا پسندی بلکہ لبرل، سیکولر فاشزم کی صورت میں بھی آپ کو دکھائی دے گی۔ یہ کسی بھی معاشرے کے امن و امان کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ایک ریاست اپنی ذمہ داری یعنی اقلیت اور اکثریت کی مقدس ہستیوں، مذہبی رسوم و روایات کے خلاف دشنام طرازیوں کو روک کر پرامن اور خودمختار ریاست کا قیام برقرار رکھے۔


نوٹ: اس مضمون میں شامل خیالات مصنف کے ذاتی ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ