اسلام آباد ہائی کورٹ: نواز شریف کو پیش ہونے کا ایک اور موقع

عدالت نے آج سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اسے تسلی کرنی ہے نواز شریف کو پیش ہونے کے حکم سے آگاہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، اس کے بعد ہی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ’اشتہاری‘ قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے انہیں عدالت میں پیشی کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔

العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف سابق نواز شریف کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ تسلی کرنی ہے کہ نواز شریف کو حکم نامے سے آگاہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، اس کے بعد ہی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔

آج ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پرعمل درآمد ہو گیا ہے اور اس حوالے سے دو رپورٹیں عدالت میں جمع کرا دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ لاہوراور لندن جبکہ ڈان لاہور میں 19 اکتوبر، 2019 کو اشتہارات شائع کرائے گئے۔

ایف آئی اے لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اعجاز احمد، طارق مسعود اور وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر محمد مبشر خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ مبشر خان نے نوازشریف کی بذریعہ اشتہار طلبی کی تعمیل کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’سابق وزیراعظم نواز شریف جان بوجھ کر عدالت پیش نہیں ہو رہے، نیز نوازشریف عدالت میں زیر سماعت کیس سے متعلق مکمل طور پر آگاہ ہیں۔‘

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں نواز شریف کے اشتہار جاری ہونے کی خبر چلی، پاکستان اور بیرون ملک اس سے متعلق خبر میڈیا پر بھی نشر ہوئی، نوازشریف کی لندن رہائش گاہ پر طلبی کا اشتہار رائل میل کے ذریعےموصول ہوا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ اشتہارات جاتی عمرہ اور ماڈل ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ پر بھی چسپاں کیے گئے جب کہ رائل میل کے ذریعے لندن میں بھی عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا۔ ’ایف آئی اے اور دفتر خارجہ کے جن افسران نے اشتہارات چسپاں کرنے کےعدالتی حکم پر عمل کیا، وہ بیان ریکارڈ کرانے کے لیے موجود ہیں۔‘

دلائل اور رپورٹ کا متن جاننے کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بیانات آئندہ سماعت پر ریکارڈ کیےجائیں گے۔ واضح رہے کہ قانونی کارروائی کے مطابق آج توقع تھی کہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا جائے گا لیکن عدالت نے ان کو عدالت میں پیش ہونے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے سماعت دو دسمبر تک ملتوی کر دی۔

کیس کا سیاق و سباق

العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ سال خراب صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا بیرون ملک علاج کروا سکیں۔

حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ای ایل سے نکالا جس کے بعد وہ گذشتہ اکتوبر میں علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔ تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود وہ وطن واپس نہیں آئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اُن کی صحت ٹھیک نہیں جس پر عدالت نے اعتراض کیا کہ ’مجرم وہاں بیٹھا ہنس رہا ہو گا کہ کیسے اس نظام کو چکمہ دے کر برطانیہ آ گیا۔‘

عدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔ پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور پیش ہونے کے لیے مزید چھ ہفتے دیے لیکن نواز شریف عدالت پیش نہ ہوئے۔

مفرور مجرم عدالت حاضر نہ ہو تو قانون کیا کہتا ہے؟

مفرور مجرم اشتہار چھپنے کے باوجود عدالت پیش نہ ہو تو قانونی کارروائی کے مطابق اگلا مرحلہ مجرم کو اشتہاری قرار دیے جانے کا ہوتا ہے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد ہائی کورٹ کےسینیئر وکیل عدنان رندھاوا سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے میں ایک ہی صورت بچتی ہے کہ مجرم کو اشتہاری قرار دے کر اُس کی جائیداد ضبطی کا حکم دیا جائے اور اثاثے منجمد کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ عدالت چاہے تو شناختی کارڈ بھی ضبط ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے کیس کے تناظر میں آج گواہان بھی موجود تھے، بیان آج ہی ریکارڈ ہو سکتے تھے اور کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکتا، تھا لیکن بظاہر عدالت نے انہیں ایک اور موقع دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ عدالت یہ درخواست عدم حاضری پر بغیر کارروائی کے خارج کرے گی کیونکہ عدالت نے اشتہاری کی کارروائی شروع کی ہے جس میں حکومتی وسائل کا استعمال ہوا ہے تو یہ کارروائی پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں عدم حاضری کی صورت میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے بعد اُن کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے کیس داخل دفتر کر دیا جائے گا۔ دائمی وارنٹ گرفتاری کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار ہو گا کہ نواز شریف کو جہاں بھی دیکھیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کریں۔

انہوں نے کہا دوسری صورت یہ بھی ہے کہ عدالت اس کیس میں وکیل مقرر کر کے میرٹ پر فیصلہ کر کے درخواست نمٹا دے لیکن اس صورت میں بھی نواز شریف اشتہاری ہی رہیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان