ویکسین تو آ گئی مگر خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟

ویکسین خریدنے کے لیے اربوں ڈالر کے علاوہ بڑی تعداد میں عملے اور صحت کے انفراسٹرکچر کی ضرورت پڑے گی۔

اس وقت متعدد کمپنیاں کرونا کے خلاف ویکسین بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں (اے ایف پی)

دنیا بھر میں کرونا (کورونا) کے باعث 13 لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے بعد مثبت خبر یہی ہے کہ کرونا ویکسین تیار ہے اور اس کی خریداری کے لیے مختلف ملکوں نے آرڈرز بھی دے دیے ہیں۔

امریکہ کی بائیو ٹیکنالوجی کی کمپنی موڈرنا جس کی ویکسین 94 فیصد سے زیادہ مؤثر پائی گئی ہے اور اسے دو سے آٹھ ڈگری سیلسیئس پر 30 دنوں تک محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک ویکسین کی قیمت 32 سے 37 امریکی ڈالر کے درمیان ہو گی۔ یہ کمپنی اس سال کے آخر تک دو کروڑ ویکسین یونٹ تیار کر کے مارکیٹ میں دے گی جبکہ اگلے سال کا ہدف 50 کروڑ سے ایک ارب ویکسین کی تیاری کا ہے۔

موڈرنا کو امریکہ نے 10 کروڑ، کینیڈا نے پانچ کروڑ 60 لاکھ، برطانیہ نے پانچ کروڑ اور سوئٹزر لینڈ نے 45 لاکھ ویکسین کا آرڈر دے دیا ہے۔

ویکسین بنانے والی دوسری کمپنی فائزر ہے جس کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ہے۔ موڈرنا اور فائزر دونوں کی ویکسینوں کے دو دو ٹیکے چار ہفتوں کے وقفے سے لگانا پڑیں گے۔

اسے عام فریج کے اندر پانچ دن تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور یہ کمپنی روزانہ 76 لاکھ ویکسین بنا کر بھیجنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی ویکسین کی قیمت 20 ڈالر رکھی گئی ہے۔ اسے بھی اب تک امریکہ کی جانب سے 10 کروڑ، یورپی یونین کی جانب سے 30 کروڑ اور جاپان کی جانب سے بارہ کروڑ ویکسین کے آرڈر مل چکے ہیں۔ اب تک کی سب سے سستی ویکسین برطانیہ کی استرا زینیکا کمپنی کی ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے بنایا گیا ہے جس کی قیمت تین سے چار ڈالر تک ہو گی۔ اس کی تیاری اور منظوری حتمی مراحل میں ہے۔

اس ویکسین کے لیے امریکہ اور بھارت نے 50 کروڑ، یورپی یونین نے 40 کروڑ، جبکہ برطانیہ، برازیل، انڈونیشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک نے 10 کروڑ ویکسین کی خریداری کے آرڈر دے دیے ہیں۔ جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کی قیمت 10 ڈالر فی ویکسین ہے۔ یورپی یونین نے 20 کروڑ، امریکہ نے 10 کروڑ، کینیڈا نے 3 کروڑ 80 لاکھ اور برطانیہ نے 3 کروڑ ویکسین کا آرڈر دے رکھا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں اب تک کیا کیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان نے 15 کروڑ ڈالر مختص کیے ہیں اور ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ پاکستان کس کمپنی سے ویکسین خرید رہا ہے تاہم 15 کروڑ ڈالر کا مطلب ہے کہ اگر فی ویکسین 32 ڈالر کی ہو تو 47 لاکھ کے قریب افراد مستفید ہو سکیں گے اور اگر سب سے سستی ویکسین 3 ڈالر والی خریدی جائے تو پانچ کروڑ لوگ مستفید ہو ں گے۔

گویا 32 ڈالر والی ویکسین 22 کروڑ آبادی کو لگانے کے لیے سات ارب ڈالر اور تین ڈالر والی کے کے لیے 70 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے جبکہ اس ویکسین کی سٹوریج، اس کی شپمنٹ اور لگانے تک جو اخراجات آئیں گے وہ اس کے علاوہ ہوں گے۔

پاکستان اگر اتنے پیسے مختص بھی کر دے تب بھی اگلی سردیوں تک اسے انتہائی مخدوش حالات کا سامنا رہے گا، جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا دگرگوں معاشی اور صحت کا نظام ہے۔

صحت کے انتہائی بوسیدہ ڈھانچے نے کرونا کی وبا کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ جبکہ اس کی معیشت میں شرح نمو منفی درجے پر آ چکی ہے اور اس سال کی پیش  گوئی منفی 2.2 کی ہے۔ ان حالات میں کرونا سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان عالمی ادروں سے کہے کہ ا س کے قرضے ایک سال کے لیے یا معاف کیے جائیں یا پھر ان کی ادائیگیاں موخر کی جائیں۔ کیونکہ کرونا کی وجہ سے پاکستان میں غربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کثیر جہتی غربت کی شرح جو پہلے ہی 38.8 فیصد پر تھی اور اب یو این ڈی پی کے مطابق چار کروڑ 90 لاکھ مزید لوگ کثیر جہتی غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2015 میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی شرح 24.3 فیصد تھی جو کرونا کے بعد 40 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔

عالمی اداروں کے یہ ہولناک اعدادو شمار پاکستان کا ایک سال کے لیے قرضوں کی معافی یا موخر کرنے کا کیس مضبوط بنا سکتے ہیں۔

لیکن کیا ایسا ممکن ہے اور حکومت اس سلسلے میں کچھ کر بھی رہی ہے یا نہیں؟

اس سلسلے میں معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر عالمی دنیا اعتماد نہیں کرتی کیوں کہ وہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے، اس لیے دنیا اسے ایک گھمبیر مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے۔

’یہ کہنا کہ اگر ریلیف ملے گا تو اس سے صحت کا ڈھانچہ بہتر کیا جائے گا، اس کی بھی کوئی ضمانت اس لیے نہیں کہ 1980 کی دہائی میں جب نج کاری کی جا رہی تھی تو کہا جا رہا تھا کہ بیمار یونٹوں کی نج کاری سے قومی خزانے پر بوجھ کم ہو گا اور یہ پیسہ تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے گا مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے عالمی اداروں نے پاکستان کو اگر ریلیف دیا بھی تو مزید قرض کی صورت ہو گا اور ہر قرض کی بھی ایک سیاسی قیمت ہوتی ہے۔ جب بھی قرض لیا گیا قومی خودمختاری کا سودا کر کے لیا گیا اس بار بھی چل رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی قیمت پر عالمی ادارے تعاون کریں گے۔‘

جب یہ حکومت بر سر اقتدار آئی تو پاکستان کے ذمہ کل واجب الادا قرضہ 29879.4 کھرب روپے تھا جو گذشتہ دو سالوں میں بڑھ کر 44563.9 کھرب ہو چکا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان کے مجموعی قرضے میں 125 فیصد اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ دو سالوں میں اگر اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو یہ 49 فیصد بنتی ہے۔

پاکستان کا کل قرضہ ڈالروں میں 265 ارب ڈالر ہے جبکہ مجموعی قومی پیداوار 248.1 ارب ڈالر ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے قرضے جی ڈی پی سے بڑھ چکے ہیں۔ مالی سال 2019-20 میں ہمارے بیرونی قرضے 112.86 ارب ڈالر پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ اس کے جی ڈی پی کا 82 فیصد ہے۔

بیرونی قرضے کی شرح بھی گذشتہ پانچ سالوں میں خاصی بڑھی ہے 2015 میں یہ 4770.0 ارب روپے تھے جو جون 2020 میں بڑھ کر11824.5 ارب روپے ہو گئے اس طرح ان میں گذشتہ پانچ سالوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اگر صرف آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کو گنا جائے تو یہ پانچ سال پہلے 417.6 ارب روپے تھے جو جون 2020 تک بڑھ کر 1291.5 ارب روپے ہو چکے تھے۔ حکومت کا کل قرضہ بھی گذشتہ پانچ سالوں میں دگنا ہو چکا ہے۔ 2015 میں یہ جی ڈی پی کا 58 فیصد تھا جو اب 80 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس بات کی تائید کی اور کہا کہ ’جی 20 ممالک نے پاکستان سمیت 70 ممالک کے لیے قرضوں کی ادائیگی مئی سے دسمبر 2020 تک موخر کی تھی جسے اب جون 2021 تک بڑھا دیا گیا ہے، جس سے پاکستان کو دو ارب ڈالر کی انٹرسٹ پیمنٹ کی بچت ہو گی لیکن یہ قرضے بائی لیٹرل ہیں جو پاکستان کے کل قرضوں کا 22 فیصد ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے زیادہ تر قرضے مالیاتی اداروں کے ہیں جن میں ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف کے ساتھ پرائیویٹ بنک اور مالیاتی بانڈز بھی شامل ہیں۔ وہ قرضے موخر نہیں ہوئے اور ان کی شرائط بھی یہی ہوتی ہیں کہ ان کی ادائیگی ہر حال میں کرنی ہوتی ہے، لیکن وہ تب جب حالات معمول کے ہوں۔

’کرونا کے بعد غیر معمولی حالات ہیں اس لیے جی 20 ممالک نے بھی عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی وصولی موخر کرنے کی سفارش کی ہے۔ میرے خیال میں کم از کم تین سال کے لیے یہ ادائیگیاں موخر کی جائیں تاکہ پاکستانی معیشت کرونا کی تباہ کاریوں سے بحال ہو سکے اور یہ پیسہ عوامی صحت سمیت فلاح کے دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘

کرونا کے باعث پاکستان کی معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے اپریل سے جون 2020 کی سہ ماہی تک بھی پاکستان نے 4.48 ارب ڈالر قرضوں کی قسطوں کی مد میں ادائیگیاں کی ہیں۔ اگر ہم صرف پچھلے سال عوامی قرضوں کی ادا کی گئی رقوم کو دیکھیں تو یہ 10.7 ارب ڈالر تھیں۔ یہ رقم روپوں میں تقریباً 1800 ارب روپے بنتی ہے۔ اگر ایک سال کے لیے پاکستان کو ریلیف مل جائے تو پاکستان کے عوام کو سماجی تحفظ اور صحت کے اخراجات میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت