سرکاری ملازمین کے لیے قوانین میں تبدیلی: نیا کیا ہے؟

وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر گلفراز کا ماننا ہے کہ محض قوانین میں تبدیلیوں سے سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔

منظور ہونے والے نئے رولز سے قبل سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور نظم و ضبط سے متعلق امور 1973 میں بنائے گئے قواعد کے تحت نمٹائے جاتے تھے(فائل تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد میں تعینات ایک وفاقی محکمے کے سینیئر اہلکار محمد شہزاد (فرضی نام) کے خلاف گزشتہ کئی برسوں سے محکمانہ انکوائری جاری ہے جس کے باعث ان کی ترقی کے علاوہ تنخواہ اور دوسری مراعات میں اضافہ رکا ہوا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد شہزاد نے بتایا: 'میری فائل ایک سے دوسرے دفتر کے چکر کاٹ رہی ہے، ابھی تک نہیں معلوم کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔'

اپنی شناخت خفیہ رکھے جانے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ انکوائری آفیسر پر تحقیقات مخصوص مدت میں مکمل کرنے سے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، جس کے باعث اتنا زیادہ عرصہ لگ رہا ہے۔

وہ محسوس کرتے ہیں کہ تحقیقات کی غیر ضروری طوالت کے باعث ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔

'انکوائری کے باعث مجھے اچھی اسائمنٹ نہیں مل رہی اور اسی وجہ سے میری پروفیشنل گروتھ رک کر رہ گئی ہے۔'

محمد شہزاد کے بعد ہم وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ملازم کے خلاف جاری انکوائری کا جائزہ لیتے ہیں۔

معروف شاکر (فرضی نام) کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے باعث ڈیپارٹمنٹل انکوائری ہو رہی ہے جس کا ایک سال بعد بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا۔

معروف شاکر نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے خلاف انکوائری کا حکم دینے والے مجاز افسر لاہور میں بیٹھتے ہیں اور انکوائری بھی وہیں ہو رہی ہے جس کے باعث کیس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

انہوں نے بتایا: 'میرے اوپر کوئی خاص الزام تو نہیں لیکن انکوائری کا یوں لمبا ہو جانا مجھے چبھ رہا ہے۔' ان کے خیال میں انکوائری ان کے اپنے سٹیشن میں ہوتی تو شاید کب کی مکمل ہو چکی ہوتی۔

پاکستان میں محمد شہزاد اور معروف شاکر جیسے سینکڑوں سرکاری ملازمین مختلف وجوہات کی بنا پر محکمانہ انکوائریز کا سامنا کر رہے ہیں اور تحقیقاتی عمل کی طوالت ان کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بننے کے علاوہ ملک کو ان کی پیشہ ورانہ مہارت سے بھی محروم رکھے ہوئے ہے۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں سرکاری دفاتر اور محکموں میں شفاف اور موثر احتساب اور کارکردگی بڑھانے اور نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے عمل میں بہتری لانے کی خاطر سول سرونٹس (ایفیشینسی اینڈ ڈسپلن) رولز 2020 کی منظوری دے دی ہے۔

یاد رہے کہ نئے رولز آنے سے قبل سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور نظم و ضبط سے متعلق امور 1973 میں بنائے گئے قواعد کے تحت نمٹائے جاتے تھے۔

نئے رولز میں کیا ہے؟

وزیر اعظم میڈیا ونگ کے جاری کردہ سول سرونٹس (ایفیشینسی  اینڈ ڈسپلن) رولز 2020 کی مندرجہ ذیل نمایاں خصوصیات ہیں۔

1۔ کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری اس کے دفتر میں موجود اتھارٹی یا مقرر کردہ انکوائری افسر یا کمیٹی کر سکیں گے اور اس کے لیے مجاز افسر کی اجازت ضروری نہیں ہو گی۔

2۔ انکوائری کی تکمیل کے لیے ٹائم لائنز مقرر کی گئی ہیں جن کے تحت الزامات کے جواب جمع کروانے کے لیے دس سے 14 دن، انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 دن اور حتمی فیصلے کے لیے 30دن مقرر کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ 1973 کے رولز میں کارروائی کو حتمی شکل دینے کے لیے کوئی مقررہ میعاد دستیاب نہیں تھی۔

3۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انکوائری کا سامنا کرنے والے سرکاری افسر کو سننا لازمی ہو گا۔

4۔ پہلی مرتبہ پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی کو بدعنوانی قرار دیا گیا ہے اور ان صورتوں کا فائدہ اٹھانے والے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

5۔ رولز میں ریکارڈ کی فراہمی، محکمانہ نمائندوں کی سست روی، معطلی، ڈیپوٹیشن/ رخصت/ سکالرشپ پر افسران کے خلاف کارروائی سے متعلق قانونی طریقہ کار کو واضح طور پر مہیا کیا گیا ہے۔

6۔  اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کسی بھی تاخیر سے بچنے کے لیے ماتحت اداروں کی ہدایات/ وضاحت جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

7۔ کسی ایک معاملے میں متعدد مشتبہ افسران کی صورت میں ایک انکوائری آفیسر کی تقرری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

8۔ انکوائری کی طوالت سے بچنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو سبسیڈری ہدایات جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

کیا نئے رولز کارآمد ثابت ہوں گے؟

وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر گلفراز کا ماننا ہے کہ محض قوانین میں تبدیلیوں سے سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 'بہت ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین کو قومی ذہن رکھنے والے انسان بنایا جائے۔'

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے انگریز حکومت سرکاری ملازمین (سول سرونٹس) سے صرف امن و امان قائم رکھنے کا کام لیا کرتی تھی اور علاقے کی ترقی کو سرکاری ملازمین کی ترجیحات میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔

'ملک تو بن گیا لیکن سرکاری ملازمین کی انگریزوں کی دی ہوئی اس سوچ کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سرکاری ملازمین آج بھی امن و امان کی بحالی کو ہی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور ترقی و خوشحالی ان کے نزدیک کوئی اہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے فرائض میں شامل ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر گلفراز، جو کئی برسوں تک مستقبل میں ایگزیکٹیو کا حصہ بننے والے سرکاری ملازمین کے لیے لاہور میں قائم تربیت گاہ نیشنل سکول آف پبلک پالیسی میں پڑھاتے رہے ہیں، نے کہا کہ بہتر نتائج کے لیے سرکاری ملازمین کو ذمہ داری کے ساتھ آزادی بھی دینا ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہدف سرکاری ملازمین کو سیاسی اثر سے آزاد کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں متحرک سول سروس کے بغیر معاشی ترقی کی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارت، برطانیہ اور چین کی مثالیں دیں جہاں سرکاری ملازمین نے معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

حال ہی میں محکمہ جنگلات سے ریٹائر ہونے والے سینیئر افسر علی حسن کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کے خلاف انکوائری کے لیے ان کے دفتر میں موجود اتھارٹی کو اختیارات دینے سے تحقیقات کا عمل تیز ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'پرانے رولز کے تحت ایک افسر اپنے ماتحت کے خلاف انکوائری کی صرف سفارش کر سکتا تھا جس میں وقت ضائع ہوتا اور غیر ضروری دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ پرانے رولز کے تحت انکوائری لاحاصل سا عمل ہو کر رہ جاتا تھا اور اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تھے۔'

ڈاکٹر گلفراز نے نئے رولز میں پلی بارگین کو بدعنوانی قرار دیے جانے کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازم کو سزا دی جا سکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان