علی وزیر کی گرفتاری: حکومت اور پی ٹی ایم کے مذاکرات خطرے میں

پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین نے سندھ حکومت سے علی وزیر کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے خلاف جمعے کو ملک گیر احتجاجی مظاہروں جبکہ 20 اور 27 دسمبر کو ضلع بنوں اور خیبر میں جلسوں کا اعلان کردیا۔

علی وزیر کے خلاف کراچی میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے(تصویر: علی وزیر ٹوئٹر اکاؤنٹ)

پولیس نے بدھ کو پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد ان کی جماعت اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات بظاہر کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔

علی وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل کراچی میں تقریر کرتے ہوئے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی توہین اور سازش کی کوشش کی۔

پشاور پولیس کے سی سی پی محمد علی گنڈا پور نے میڈیا کو بتایا کہ یہ گرفتاری سندھ پولیس کی درخواست پر عمل میں لائی گئی ہے، کیوں کہ علی وزیر کے خلاف کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج ہے۔

پشاور پولیس کے مطابق علی وزیر کو کراچی منتقل کیا جائے گا جہاں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے رکن قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی ایم علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف کل یعنی جمعے کو ملک گیر احتجاجی مظاہروں جبکہ 20 اور 27 دسمبر کو ضلع بنوں اور ضلع خیبر میں جلسوں کا اعلان کردیا ہے۔ منطور پشتین نے سندھ حکومت سے علی وزیر کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔

صحافی گوہر محسود نے اس معاملے پر پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما عبدللہ ننگیال سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ 16 دسمبر ’وہ بدبخت دن ہے جس پر بنگالیوں نے تنگ آ کر پاکستان سے علیحدگی کا راستہ اختیار کر لیا، اسی روز آرمی پبلک سکول میں بے گناہ بچے قربان ہوئے، علی وزیر ان معصوم بچوں کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے پشاور گئے تھے جہاں انہیں اسی دن گرفتار کرلیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو اس بات کا نہ صرف احساس کرنا ہوگا کہ پختونوں کو ماضی میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کا ازالہ بھی کرنا ہو گا۔

ذرائع کے مطابق چند روز قبل بھی پشتون تحفظ موومنٹ اور حکومتی ٹیم کے درمیان اسلام آباد میں نشست ہوئی تھی، جس میں حکومت کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور پرویز خٹک نے شرکت کی جبکہ پی ٹی ایم کی جانب سے منظور پشتین اور عبداللہ ننگیال سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال کے وسط میں وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے پی ٹی ایم کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی، جس کا محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے خیرمقدم کیا تھا، تاہم یہ بھی کہا تھا کہ وہ صرف ایسی ٹیم سے بات کرنا پسند کریں گے جو مذاکرات کے دوران طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

علی وزیر کی گرفتاری پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ علی وزیر کی پشاور میں گرفتاری ریاست کی جبری پالیسی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علی وزیر کی گرفتاری کے معاملے پر پی ٹی ایم جلد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

علی وزیر کو جمعرات کو پشاور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پر رکن پارلیمنٹ اور پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے کہا کہ علی وزیر کی گرفتاری پر مزاحمت کے ساتھ ساتھ قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔

ذرائع کے مطابق حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ چند مہینوں سے تسلسل سے چلا آ رہا ہے، تاہم ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

ماہرین کے مطابق کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک سپیکر قومی اسمبلی کو باقاعدہ آگاہ نہ کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان