ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہی کے لیے قرآنی تعلیمات کا سہارا

پاکستان ہلال احمر خیبرپختونخوا کی جانب سے شروع کیے گئے اس پروگرام کے پہلے فیز میں صوبے کی مساجد میں خطیبوں سے بات کی جائے گی تاکہ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو بتائیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے جبکہ سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا جائے گا۔

مولانا اسمٰعیل  کے مطابق: 'شریعت میں ماحول کی صفائی کے حوالے سے بھی واضح احکامات موجود ہیں کہ ماحول کو گندہ ہونے سے بچایا جائے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔' (فائل تصویر: اے ایف پی)

 پاکستان ہلال احمر نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس میں عوام کو قرانی تعلیمات کی روشنی میں مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کی جائے گی۔

اس پروگرام کا آغاز بدھ 16 دسمبر کو خیبر پختونخوا سے کیا گیا، جس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ  اور اسلامی سکالر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بتایا کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے یہ ہدایت کی گئی تھی کہ قرانی تعلیمات کی روشنی میں عوام کے لیے مختلف مسئلوں پر آگاہی کے لیے پروگرام کیے جائیں اور یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس کاوش میں پاکستان ہلال احمر کے ساتھ ہوگی اور معاونت فراہم کرے گی تاکہ عوام کو ماحولیاتی تبدیلوں کے بارے میں آگاہی قرانی تعلیمات کی روشنی میں دی جائے۔'

آگاہی مہم میں کیا ہوگا؟

پاکستان ہلال احمر خیبر پختونخوا کے ترجمان ذیشان انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس آگاہی پروگرام کے پہلے فیز میں صوبے کی مساجد میں خطیبوں سے بات کی جائے گی تاکہ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو بتائیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے اور اس کا تدارک کس طرح کیا جائے گا۔

ذیشان کے مطابق: 'خطیب زیادہ تر جمعے کے خطبوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے قران وحدیث میں موجود آیات اور حدیثوں کے حوالے دیں گے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی مختلف پوسٹرز اور بینرز کی تشہیر ہوگی، جن میں قرآنی تعلیمات کے حوالے موجود ہوں گے تاکہ لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بہتر اور آسان طریقے سے سمجھ سکیں اور اس کے تدارک کے لیے عوام سے جتنا ہو سکے وہ کریں۔

ذیشان کے مطابق: 'سوشل میڈیا اور مساجد میں خطبوں کے علاوہ صوبے بھر میں مختلف پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جائے گا، جن میں مذہبی سکالرز اور علما مدعو کیے جائیں گے تاکہ عوام کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں آگاہی دی جاسکے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر آصف خان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات میں استاد ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے برے اثرات مرتب کرنے والے ممالک میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ دو سال پہلے پاکستان ساتویں نمبر پر تھا یعنی ان برے اثرات میں مزید تیزی آئی ہے۔

انہوں نے بتایا: 'اگر اس حوالے سے عوام میں آگاہی نہیں دی گئی تو خطرہ ہے کہ 2040 تک پاکستان کے80  فیصد گلیشیئرز پگھل کر ختم ہو جائیں گے۔ زمین کے درجہ حرارت میں 1850 سے ایک فیصد اضافہ ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی نقصان ہو ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔'

مولانا محمد اسمٰعیل پشاور کی  تفہیم دین اکیڈمی کے سربراہ ہیں، جو سوشل میڈیا سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں مختلف مسائل پر لیکچرز بھی دیتے ہیں، انہوں نے اس آگاہی مہم کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں ایک قدرتی نظام ہے، جو اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے تاہم شریعت  میں ماحول  کی حفاظت کے حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شریعت میں شجرکاری  کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں اور پیغمر اسلام کی طرف سے بھی درخت لگانے کو کہا گیا ہے، جیسا  کہ زیتون یا کھجور کے درخت کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔

مولانا اسمٰعیل نے مزید بتایا کہ 'شریعت میں ماحول کی صفائی کے حوالے سے بھی واضح احکامات موجود ہیں کہ ماحول کو گندہ ہونے سے بچایا جائے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے اگر مزید شجرکاری کی جائے اور درختوں کو کٹنے سے بچایا جائے تو ماحول میں  بہتری لائی جا سکتی ہے۔'

مولانا نے بتایا: 'درختوں کی لکڑی کو گھریلو ضرورت کے لیے استعمال کیا جاتا، لیکن ہم درخت کاٹ تو رہے ہیں مگر مزید درخت نہیں لگا رہے ہیں اس لیے ضروت کے لیے درخت کاٹنے کے ساتھ ساتھ حکومت سمیت عوام کو  شجرکاری بھی کرنی چاہیے۔'

زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا قرآن میں ذکر موجود ہے، اس حوالے سے مولانا اسمٰعیل نے بتایا کہ یہ ایک قدرتی نظام ہے کہ گرمی اور سردی آتی ہے اور اس کے فوائد بھی موجود ہیں کیونکہ کچھ سبزیاں اور پھل ایسے ہوتے ہیں جن کو گرمی اور دھوپ کی ضرورت ہوتی ہیں جبکہ کچھ میوہ جات سردیوں کے موسم میں پیدا ہوتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

یونائیٹڈ نیشن ڈولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں نالوں کے پانی کی آلودگی، کارخانوں سے نکلے ہوئے ہوئے فضلے سمیت لوگوں کو صاف پانی کا مسئلہ بھی درپیش ہے جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات میں گلیشیئرز کا پگھلنا، بارشوں کی زیادتی، پانی کی ذخیرہ اندوزی کی کمی سمیت زمین کے درجہ حرات میں اضافے سے فصلوں کی تعداد کم ہونا شامل ہے۔

یو این ڈی پی کے مطابق اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو فصلوں کے کم تعداد میں اُگنے سے پاکستان کی آبادی  کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان کے درجہ حرات میں اضافے کے حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی 2017 کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے اوسط درجہ حرات میں گذشتہ 50 برسوں میں صفر اشاریہ 5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ گرمی کی لہر کے دنوں میں گذشتہ 30 سالوں سے پانچ گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور اس صدی کے اختتام پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کے درجہ حرات میں تین ڈگری سینٹی گریڈ سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے۔

درجہ حرات میں اضافے کی وجہ سے رپورٹ کے مطابق گلیشیئرز کے پگھلنے سے پانی کو محفوظ کرنے اور دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے کا خطرہ ہے جبکہ اس اضافے سے توانائی کے استعمال میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب پاور پلانٹس کی کارکردگی شدید گرمی کی وجہ سے متاثر ہوسکتی ہے جس سے ملک کو توانائی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات