امریکہ اور ایران میں پھنسی عراقی حکومت کی مشکلات میں اضافہ

امریکی ڈرون حملے میں ایران کے اہم ترین کمانڈر کی عراقی سر زمین پر ہلاکت کے ایک سال بعد بھی بغداد میں واشنگٹن کے حمایت یافتہ وزیر اعظم اور تہران کی حامی ملیشیا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عراق کے جنوبی شہر نصیریہ میں حکومت مخالف مظاہرے میں شامل ایک نوجوان (اے ایف پی)

امریکی ڈرون حملے میں ایران کے اہم ترین کمانڈر کی عراقی سر زمین پر ہلاکت کے ایک سال بعد بھی بغداد میں واشنگٹن کے حمایت یافتہ وزیر اعظم اور تہران کی حامی ملیشیا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رواں سال تین جنوری کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی شعیہ ملیشیا کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندیس کی امریکی حملے میں ہلاکت نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو مشتعل کردیا تھا۔

اس حملے کے ایک سال پورے ہونے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ کارروائی عراق میں امریکی مفادات پر حملوں کے جواب میں کی گئی تھی۔ وہائٹ ہاؤس میں صرف ہفتوں کے مہمان صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی مفادات پر نئے حملے ہوئے تو ’میں ایران کو ان کا ذمہ دار ٹھراؤں گا۔‘

عراق صدام حکومت کا تختہ الٹنے والے امریکہ اور اپنے ہمسایہ ملک ایران کے درمیان بٹا ہوا ہے۔ واشنگٹن کے ازلی دشمن ایران کا عراق میں اثر و رسوخ 2003 میں امریکی حملے کے بعد سے بہت بڑھ گیا ہے۔

مئی میں اقتدار سنبھالنے والے عراق کے وزیر اعظم مصطفی الکدیمی نے حال ہی میں ایران کے حمایت یافتہ طاقت ور نیم فوجی گروپس کی دھمکیوں کو برداشت کیا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن ان گروپس کو اپنی تنصیبات پر راکٹ حملوں کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت اور ان گروپس کے درمیان کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب امریکی سفارت خانے پر ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اسیب اہل الحق (اے اے ایچ) کے ایک جنگجو کو حراست میں لیا گیا۔ اے اے ایچ حشد الشعبی نیم فوجی نیٹ ورک کا ایک گروہ ہے۔

ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد اے اے ایچ کے مشتعل جنگجو بغداد کی گلیوں میں مارچ کرتے رہے اور انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ جب تک ان کے ساتھی کو رہا نہیں کیا جاتا وہ وزیر اعظم کو ذاتی طور پر نشانہ بنائیں گے۔

آن لائن گردش میں آنے والی متعدد ویڈیوز میں سے ایک میں نقاب پوش جنگجو نے کہا: ’ہم نے وزیر اعظم کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ پیچھے نہیں ہٹے تو انہیں اس کی سزا دی جائے گی۔‘ ایک اور گروپ نے دھمکی دی کہ ’غداروں کے کان کاٹ دیے جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کی حامی فورسز نے الزام لگایا کہ الکدیمی جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث ہیں۔ حشد کے ایک اور دھڑے ’کاتب حزب اللہ‘ کے ترجمان نے وزیر اعظم پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ ’غدار وزیراعظم کو ہمارے صبر کا امتحان نہیں لینا چاہیے۔‘

ان تمام دھمکیوں کے جواب میں عراقی وزیر اعظم نے انہیں پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے لیکن ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ہم فیصلہ کن تصادم کے لیے تیار ہیں۔‘

الفاظ کی یہ جنگ ایک ایسے ملک میں تناؤ کو بڑھا رہی ہے جو سالوں کی جنگ اور شورش کے بعد سیاسی طور پر نازک دور سے گزر رہا ہے جب کہ کووڈ 19 اور اس کی وجہ سے تیل کی طلب میں کمی سے اس کی معیشت تیزی گر رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا