2020: مشرق وسطیٰ کے لیے ’خسارے‘ کا سال

سفارتی محاذ پر ہونے والی غیرمعمولی پیش رفت نے گذشتہ برس مشرق وسطیٰ کی سیاست وجغرافیے کا حلیہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔ 

2020 ایران کے لیے بدترین سال ثابت ہوا (اے ایف پی)

سال 2020 کے دوران مشرق وسطیٰ کا خطہ ان عوامل سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جن کا سامنا اسی مدت کے دوران دنیا کے مختلف ملک کر رہے تھے۔

بیتا ہوا سال تاریخ کے منفرد دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ عالمی وبا کی وجہ سے انسانی زندگی تو تباہی سے دوچار ہوئی ہی تھی ساتھ میں سونے پر سہاگہ کہ اسی عرصہ میں خلیج عرب کا خطہ خاص طور پر تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہوا۔ طاقت کے عالمی توازن کے لیے ملکوں کے درمیان جاری کشمکش نمایاں ہو کر 2020 میں سامنے آئی اور کرونا وائرس جیسی ہلاکت خیز عالمی وبا کی وجہ سے بہت سی چیزیں پیچیدہ صورت حال اختیار کرتی رہیں۔

یہ تحریر آپ آڈیو پوڈکاسٹ کی صورت میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 2020 ایران کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔ اس دوران تہران کو امریکی انتظامیہ کے دباؤ میں اضافے کی پالیسی کا سامنا رہا۔ دباؤ کی مہم میں امریکی جکڑ بندیاں اور اقوام متحدہ میں سینیئر ایرانی سفارت کاروں پر سفری پابندیاں نمایاں رہیں۔ سب سے بڑھ کر ایران کے عسکری خزانے اور سپاہ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ہلاک کر دیا گیا۔ دو ہزار بیس کی آخری سہ ماہی میں ایران کے نمایاں ترین جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا۔

ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کی مئی 2018 میں یک طرفہ علیحدگی کے بعد تہران کی معیشت پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس پالیسی سے ایران کی مذاکرات کی میز پر واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی جریدے فارن پالیسی کی رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی انتہائی دباؤ کی پالیسی موثر رہی۔ اس نے ایرانی معیشت پر کاری ضرب لگائی اور تہران کے سارے بل کس نکال دیے۔

امریکی پابندیوں اور کرونا کی وبا کے ملے جلے اثرات نے ایرانی معیشت کو نہایت کمزور پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ ایک ایرانی تجزیہ کار کے مطابق بگڑے ہوئے اقتصادی حالات کے سبب تہران کے مغرب کے ساتھ بات چیت کی طرف لوٹنے کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے، تاہم اس حوالے سے ویژن ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد ہی واضح ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی سخت گیر صدر اقتدار سنبھالے اور مذاکرات کا دروازہ حتمی طور پر بند ہو جائے اور اس کے سبب واشنگٹن مزید سخت موقف اپنانے پر مجبور ہو جائے۔

لبنان

کئی دہائیوں پہلے ہونے والی خانہ جنگی کے بعد لبنان کو ایک مرتبہ پھر گذشتہ برس بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا رہا۔ اس صورت حال کا نکتہ عروج چار اگست 2020 کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والا ایک بڑا دھماکا تھا۔ یہ دھماکا 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کو غیر محفوظ انداز میں رکھنے کی وجہ سے ہوا۔ اس سے تقریباً 90 لوگ ہلاک اور 6000 افراد زخمی ہوئے۔ ماہرین کے مطابق یہ تاریخ کے سب سے بڑے غیرجوہری دھماکوں میں سے ایک تھا۔ یہ ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹمی بم کا بیسواں حصہ بنتا ہے۔

لبنان میں معاشی اور سیاسی بحران روز بروز بڑھتا گیا جس کے بعد حزب اللہ کو اپنی سخت گیر پالیسیوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور چشم فلک نے دیکھا کہ اسرائیل کو دنیا کو نقشے سے مٹانے کے نعرہ مستانہ کو بنیاد بنا کر فرقہ وارانہ سیاست کرنے والی ملیشیا کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں اسرائیل کے ساتھ اپنی بحری سرحدوں کے تعین کے لیے مذاکرات کرنا پڑے۔

معاہدہ ابراہم

سیاسی اور سکیورٹی معاملات کے سلسلے میں گذشتہ سال امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انوکھی اپروچ متعارف کرائی۔ اس کے تحت انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دیرینہ مسئلے کے حل کی خاطر فلسطینیوں سے بات چیت کی بجائے ان ملکوں سے تعلقات معمول پر لانے کی پالیسی شروع کی جو ماضی میں فلسطینیوں کی پشتی بانی کا فریضہ سرانجام دیے رہے تھے۔ ان کی outside in اپروچ کے نتیجے میں عرب اسرائیل سفارت کاری کا وہ باب رقم ہوا جس کا 2020 کے اوائل میں کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ 2020 میں اسرائیل نے ثانوی کردار سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم حیثیت اختیار کرلی۔

یو اے ای سمیت کئی ملکوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ خلیجی ملکوں بالخصوص متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ’معاہدہ ابراہم‘ اسی سفارت کاری کے بطن سے پیدا ہوا۔ اب اس معاہدے کے انڈے بچے افریقی ملک مراکش اور سوڈان تک دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغرب نے تصادم کی بجائے خطے میں معاشی، سیاسی اور فوجی سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی پالیسی کے ذریعے امن کے قیام کی کوشش کی کیونکہ 2020 میں کرونا کی وجہ سے ہونے والے معاشی، سیاسی اور فوجی نقصانات کو دنیا زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

انتہا پسندی

خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب کو گذشتہ برس دہشت گردوں اور انتہا پسندی سے خطرہ رہا۔ دہشت گردی کے ناسور کے خلاف عالمی جنگ کا بڑا ہدف ان علاقوں کو ایسے خطرات سے بچانا تھا۔ ماضی میں یہ ممالک اپنی سلامتی کے لیے ہمیشہ اسرائیل کو ایک خطرہ سمجھتے آئے ہیں، لیکن ایران کے حالیہ توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں اپنی پراکسیز کے ذریعے کی جانے والی کارروائیوں کے بعد ان ملکوں کا threat perception تبدیل ہوتا دکھائی دیا۔

متوقع خطرے کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی کے بعد بننے والے عرب اتحادوں میں اس کی جھلک نمایاں رہی۔ روایتی طور پر مملکت سعودی عرب کا جھکاؤ امریکی بلاک کی طرف رہا ہے لیکن رسوخ کی عالمی لڑائی کے دوران ریاض نے چین کے ساتھ بھی متوازن خارجہ پالیسی چلانے کی کوشش کی اور بیجنگ کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھائے۔

لیبیا اور یمن

2020 میں لیبیا اور یمن میں جاری جنگ نے خطے کے استحکام پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ انتہا پسندی طاقت کے حصول کی عالمی جنگ میں اس طرح ضم ہوئی کہ دونوں کے درمیان تفریق کرنا ممکن نہیں رہا۔ داعش اور القاعدہ جیسے انتہا پسند گروپ کے عالمی عزائم سال گذشتہ بھی سامنے آتے رہے۔

علاقائی مسائل اور عزائم کے پرچارک مختلف گروپوں کا بڑا ہدف شام یا لبنان میں دکھائی دیا۔ ان گروپوں میں حماس اور حزب اللہ نمایاں رہے۔ لیبیا میں اسی قماش کے گروپ سرگرم دکھائی دیے جو خطے میں دوسرے ملکوں کی پراکسی تھے، ان کی پشتی بان بعض گلوبل پلیئر کرتے رہے ہیں۔

یمن 2020 کے دوران مزید تباہی کی راہ پر چل نکلا۔ وہاں متحارب فریقوں کے درمیان نئے جتھے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ شمال میں حوثی بلا شرکت غیرے معاملات چلاتے رہے جبکہ جنوب میں سعودی عرب اور یمن کے دھڑوں میں اختلاف دیکھا گیا۔ پہلے لڑائیاں اور پھر اتحادی حکومت تشکیل پائی۔ سال کے اختتام سے دو دن قبل عدن کے ہوائی اڈے پر نئی یمنی کابینہ کی سعودی عرب سے واپسی کے موقع پر دھماکے کے بعد ایک مرتبہ پھر عدن غیرمستحکم ہو چکا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ 2021 میں مذاکرات کے ذریعے ہی یمن کے بحران حل تلاش کیا جائے گا۔ متحارب گروپوں کی قیادت کو معلوم ہو چکا ہے کہ فوجی طاقت سے یمن کا مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ ویت نام اور افغانستان کی طرز پر یمن میں بھی سال نو میں مذاکرات کی میز سجے گی کیونکہ وہاں سرگرم فریقوں کے نظریات بہت ہی متنوع قسم کے ہیں۔ ایک جماعت دوسری کو نیچا نہیں دکھا سکتی۔ کمپرومائز کی طرف صورت حال بڑھے گی۔

شام وعراق

شام میں بھی 2020 کے دوران یمن سے ملتی جلتی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ مسئلہ امریکہ، مغربی یورپ اور علاقائی شخصی قوتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی تھا۔ شام میں چلنے والی تحریکیں مقامی اور نظریاتی تھیں۔ ان میں تقسیم کے باوجود استحکام بھی دیکھنے میں آیا۔ ان علاقوں میں نظریاتی تحریک چلانے والے لوگ ہار نہیں مانتے، جیسا کہ افغانستان میں پچھلے 20 سال کی جدوجہد میں دیکھا گیا۔ کسی ملک میں فوجیں اتار کر اسے اب استعمار کا غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اب عوام کے اندر بیداری پائی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عراق میں انتخاب اور جمہوریت کے باوجود 2020 میں عدم استحکام دیکھنے میں آیا۔ ایران کا عراق میں عمل دخل غیرمعمولی طور پر بڑھتا رہا حتی کہ وہاں حکومت سازی کا مرحلہ تہران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی آئے روز دھمکیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوا۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکی فوجی اہداف تہران کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے اور اب بھی یہ سلسلہ بلا روک جاری ہے۔

خلیج بحران

خلیج میں قطر پر تین سالوں سے عائد پابندیاں 2020 میں بھی جاری رہیں تاہم سخت قسم کا معاشی اور سیاسی بائیکاٹ مطلوبہ نتائج لانے میں ناکام دکھائی دیا۔ قطر نے ترکی اور ایران سے مل کر تجارت سمیت دوسرے تعلقات بنائے۔ پانچ جنوری کو خلیج تعاون کونسل کا اجلاس بلائے جانے کے بعد اب بحران کے حل کی امید پیدا ہوئی ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امیر قطر کو جی سی سی سمٹ میں شرکت کا دعوت نامہ ارسال کیا ہے۔

خلیج کی ریاستوں سلطنت آف عمان اور کویت کے سربراہان کی رحلت کے بعد ان ملکوں میں گذشتہ برس برسراقتدار آنے والی نئی قیادت نے اپنے پیش روؤں کی پالیسیوں کو بڑھاوا دینا مناسب جانا اور اس طرح کویت نے ایک مرتبہ پھر بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے قطر کے خلیجی بائیکاٹ سے پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی۔ اس کا پھل جلد سامنے آنے والا ہے۔

بائیڈن حکومت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحۂ عمل (JCPOA)  پر باراک اوباما دور میں دستخط کیے۔ اس معاہدے کا محور ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مذاکرات تھے، جس کے ذریعے ایران کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ برس اس معاہدے کے برعکس روش اپنائی۔

حالیہ امریکی انتخاب میں جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد صدر اوباما کی مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی پالیسی کے دوبارہ احیا کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ اس تناظر میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی پالیسی کو کیسے چلایا جائے گا؟

ایران اگر مذاکرات پر تیار ہو جاتا ہے تو اس سے بات چیت شروع کرنے پر اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے عرب ملک کیا ردعمل ظاہر کریں گے؟ بائیڈن کا اصل امتحان ان دونوں اپروچز میں توازن قائم کرنے میں مضمر ہے۔ فلسطین کے دو ریاستی حل کو ماننے پر کیا اسرائیل تیار ہوگا؟ ابھی واضح نہیں اور عرب حکام بھی انتظار کا مشورہ دے رہے ہیں۔

امریکہ کی نئی حکومت کا انداز حکمرانی یقیناً پچھلی حکومت سے مختلف ہو گا لیکن اس میں پالیسی کے تسلسل کا پہلو نمایاں دکھائی دے گا۔ حکمرانی کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن مفادات وہی آگے بڑھائے جائیں گے جو اسٹیبلشمنٹ بیان کرے گی، عمل درآمد انہی پر ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ