خیبر پختونخوا حکومت کا کرک میں مسمار شدہ مندر تعمیر کرانے کا اعلان

خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے سمادھی کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

کرک میں مندر اور سمادھی میں توڑ پھوڑ کا واقعہ  بدھ (30 دسمبر) کو پیش   آیا تھا (سکرین گریب)

خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع کرک کے علاقے ٹیری میں مشتعل افراد کی جانب سے مسمار کیے گئے مندر اور سمادھی کو دوبارہ تعمیر کروانے کا اعلان کیا ہے۔

ضلع کرک کے علاقے ٹیری میں ہندوؤں کے مذہبی پیشوا کی سمادھی 1919 سے قائم ہے جسے رواں ہفتے بدھ کے روز مشتعل ہجوم نے مقامی مولانا کے حکم پر آگ لگا کر مسمار کردیا تھا اور سمادھی کے اندر توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔

اس واقعے کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت ملک کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔ 

خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے سمادھی کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

کامران بنگش نے  بتایا کہ پولیس نے واقعے میں ملوث تین مرکزی ملزمان سمیت 45 افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جن کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر قیمت پر مذہبی رواداری کو برقرار رکھا جائے گا کیونکہ ہم صدیوں سے مذہبی رواداری کے امین ہیں۔‘

مشیر اطلاعات نے عوام سے بھی درخواست کی کہ اہل علاقہ تنگ نظر لوگوں کے خلاف بروقت پولیس کو آگاہ کریں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک رکنی کمیشن، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور آئی جی خیبرپختونخوا کو جائے وقوع کا دورہ کر کے پیر (چار جنوری) تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی تھی جبکہ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ میں منگل (پانچ جنوری) کو سماعت ہوگی۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

بدھ (30 دسمبر) کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سمادھی میں توسیع کا کام شروع  کیا جا رہا تھا اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے ایک مظاہرے میں جماعت کے مقامی رہنما مولانا محمد شریف نے ہجوم سے خطاب میں کہا کہ وہ اس علاقے میں سمادھی کو قائم رہنے نہ دیں، جس پر لوگ مشتعل ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واقعے کے مقدمے کے مطابق مولانا شریف نے لوگوں کو کہا کہ جائیں اور سمادھی کو مسمار کریں اور اگر اس میں کوئی جان سے گیا تو وہ ’شہید‘ ہوگا۔

پولیس کی جانب سے درج مقدمے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سمادھی میں توڑ پھوڑ کے بعد اس میں موجود قیمتی اشیا بھی لوٹ لی گئیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ہندو کمیونٹی کے مذہبی سکالر ہارون سرب دیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس علاقے میں ایک بھی ہندو آباد نہیں ہے تاہم اس سمادھی میں ہر جمعرات کو ملک کے دیگر صوبوں سے لوگ آتے تھے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ ہمارے مذہبی پیشوا کی سمادھی ہے جس طرح مزار ہوتا ہے اور ہندوؤں کے لیے مذہبی پیشوا نہایت ہی اہم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان