ایک نئے این آر او کی آمد؟

آج کل محمد علی درانی ایک این آر او کرنے نکلے ہیں۔ آپ ان کی باتیں سنیں۔ ٹریک ٹو میں خفیہ ملاقاتیں کر کے وہ گرینڈ ڈائیلاگ کا انتظام کر رہے ہیں۔ خفیہ ملاقاتیں ہمیشہ این آر او کے لیے ہوتی ہیں۔ عوامی ایجنڈا عوام کے سامنے بنایا جاتا ہے۔

محمد علی درانی (اے ایف پی)

سب سے پہلے آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔

فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے درمیان جو سیاسی معاہدہ ہوا اسے عرف عام میں این آر او یعنی انگریزی میں نیشنل ریکنسیلیشن آرڈیننس کہتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت سیاست دانوں پر قائم کرپشن کے ہزاروں مقدمات ختم کر دیئے گئے اور بینظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی ختم ہوئی۔

یہ تحریر یہاں آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ عدلیہ نے این آر او کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا اور مقدمات بحال کر دیئے جن میں سے کچھ آج تک چل رہے ہیں۔ بینظیر کو ذاتی طور پر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا اور قتل کر دی گئیں۔ جنرل مشرف بھی کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور بلآخر صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یعنی کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور نقصان اس قوم نے اٹھایا۔

اس تعریف کے مطابق این آر او اس معاہدے کو کہتے ہیں جس کی قانونی حیثیت مشکوک ہو اور صرف دو فریقین کے ذاتی مفاد کے لیے ہو مگر قوم کو سراسر نقصان ہو۔ پاکستان کی پوری تاریخ این آر او سے بھری پڑی ہے۔ عدلیہ کا دیا ہوا نظریہ ضرورت بھی ایک این آر او تھا۔

عمران خان کو صادق اور امین کا کو سرٹیفیکٹ جاری کیا گیا وہ بھی انہیں حکومت میں پہنچانے کے لیے جج ثاقب کا این آر او تھا۔ نواز شریف اور بینظیر کے درمیان جو میثاق جمہوریت ہوا وہ ان کا ایک دوسرے کو این آر او تھا اس لیے کہ اس سے نہ جمہوریت مضبوط ہوئی اور نہ اس قوم کو کچھ ملا بس یہ دونوں باریاں لیتے رہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹیاں، انتہا پسند مدرسہ، ٹیکس چوروں کو مراعات، بڑی کاروباری اداروں کو سبسڈی اور گیس چوروں کو چھوٹ یہ ساری این آر او کی قسمیں ہیں جنہوں نے اس ملک کو آج تباہ و برباد کر دیا ہے۔

ہم کچھ نہ سیکھے۔ اب آج کل محمد علی درانی ایک این آر او کرنے نکلے ہیں۔ آپ ان کی باتیں سنیں۔ ٹریک ٹو میں خفیہ ملاقاتیں کر کے وہ گرینڈ ڈائیلاگ کا انتظام کر رہے ہیں۔ خفیہ ملاقاتیں ہمیشہ این آر او کے لیے ہوتی ہیں۔ عوامی ایجنڈا عوام کے سامنے بنایا جاتا ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کے احتساب مقدمات روک دیئے جائیں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ حکومت کا بھی احتساب کرو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کے وہ کسی کا نہیں اپنی پارٹی سربراہ کا پیغام لے کر گئے ہیں مگر دوسری سانس میں یہ بھی کہتے ہیں ریاست کا ڈائیلاگ ہمیشہ خفیہ ہوتا ہے۔

اگر اپنی پارٹی کے سربراہ کا پیغام ہے تو پہلے حکومتی اتحادی پارٹی کے پاس جائیں اور کہیں کے ڈائیلاگ کا ایجنڈا تیار کریں۔ محمد علی درانی کی موجودہ حرکات و سکنات صرف اور صرف فوج کو مزید بدنام کریں گی اور عوام میں ان کے خلاف غصہ مزید بڑھے گا۔ اگر محمد علی درانی ڈائیلاگ میں سنجیدہ ہیں تو حکومتی اتحاد کا میثاق عوام کے سامنے رکھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد ان کے میثاق، پی ڈی ایم کے میثاق پاکستان اور ہمارے میثاق عوام پر عوام کے سامنے ہمارے تجویز کردہ قومی سیاسی مذاکرات ہوں گے۔ کوئی خفیہ ڈیل اور معاہدہ نہیں ہوگا اور اگر ہوا تو نتائج کے ذمہ دار وہ سب ہوں گے جو اس کا حصہ ہوں گے۔ عوام کے غیض و غضب سے بچیں ان میں سے کسی کو اندازہ نہیں ہے اس وقت عوام کتنے غصہ میں ہے۔ ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم ہے۔ میں نے سربراہی اجلاس کے لیے کچھ تجاویز بھیجی تھیں۔ استعفی کے معاملے پر میری انہیں ہمیشہ یہی رائے تھی اس کا وقت ابھی نہیں آیا۔ لانگ مارچ وہ راولپنڈی لے جانا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر اسٹیبلشمنٹ پر انجینرنگ کا الزام ہے تو لانگ مارچ وہیں جائے گا مگر وہاں پہنچنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا وہی گراینڈ ڈائیلاگ ہوگا جو اس وقت محمد علی درانی لے کر پہنچے ہیں۔

اگر یہی کرنا ہے تو لانگ مارچ کی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے عوام کو اس کے شر سے محفوظ رکھیں۔ پی ڈی ایم خود بھی کنفیوز ہے اور قوم کو بھی کنفیوز کر رہی ہے۔ اگر پی ڈی ایم کا مقصد قومی مسائل کا حل ہے تو پھر راستہ وہی ہے یعنی قومی سیاسی مذاکرات۔ اگر پی ڈی ایم اقتدار کے لیے ڈیل مانگ رہی ہے تو لانگ مارچ میں قوم کو تکلیف دینے کی بجائے محمد علی درانی سے خفیہ ڈائیلاگ کر لیں اور دائروں کا سفر برقرار رکھیں۔ ان دائروں کے سفر نے ہی بینظیر کی جان لے لی اور نواز شریف کو دوسری جلاوطنی گزارنا پڑ رہی ہے۔ جبکہ جنرل مشرف دبئی میں بیٹھے الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں اور اپنے ملک واپس نہیں آسکتے۔ سب نقصان میں ہیں۔

حکومت کے بارے میں کوئی بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ نااہلی اور بچکانہ پن جاری ہے۔ کوئی بات کپتان کے پلے نہیں پڑتی اور ساری کابینہ سوچ سمجھ سے عاری نظر آتی ہے۔ خوشامدی ٹولہ ہے جو ہر وقت نوکری بچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ ان سے آدمی بات کرے بھی تو اس کی کیا ضمانت ہے بات ان کی سمجھ میں آ رہی ہے۔

پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے ہم اس تباہ حالت کو پہنچے ہیں۔ آج بھی یہ تینوں مسائل کے حل کی بجائے خفیہ ڈیلوں کی تلاش میں ہیں۔ قومی مذاکرات کی جو میز ہم نے تجویز کی ہے وہی حل ہے۔ باقی سب اندھیروں میں تیر چلا رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ