صرف ہائی کورٹ کی تحقیقات قبول کریں گے، اسامہ ستی کے اہل خانہ

اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ میں گذشتہ ہفتے ہلاک ہونے والے نواجوان اسامہ ندیم ستی کے خاندان کا مطالبہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج سے کیس کی تحقیقات کروائی جائیں۔

اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان اسامہ ندیم ستی کے خاندان نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اسامہ ستی کے چچا نوید ستی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کراوئی جائیں اور اس سے کم نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسامہ ستی کے والد اور دوسرے اہل خانہ نے حکومت کو بتا دیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے جج کے علاوہ کسی دوسری سطح کی تحقیقات کو قبول نہیں کریں گے۔

ہائی کوٹ کے جج کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے سامنے رکھا گیا  جب وہ اتوار کو افسوس کے لیے اسامہ کے گھر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسامہ کے والدین اور دوسرے اہل خانہ کی واحد خواہش قاتلوں کو سزا دلانا ہے۔

حکومت نے اسامہ ستی کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔

یاد رہے کہ 21 سالہ اسامہ ستی کو گذشتہ ہفتے اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس کے مطابق انسداد دہشت گردی سکواڈ کے پانچ اہلکاروں نے اسامہ ستی کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا اور تعمیل نہ ہونے پر انہوں نے گولیاں چلا دیں۔

اسامہ ستی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بیٹے کا چند روز قبل کچھ پولیس اہلکاروں سے جھگڑا ہوا تھا اور ان کے خیال میں اسامہ کا قتل اسی جھگڑے کا شاخسانہ ہے۔

اسلام آباد میں رمنا پولیس سٹیشن کے اہلکار محمد شہباز میاں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ اسامہ پر فائرنگ کرنے والے افراد پولیس اہلکار تھے۔

واقعے میں ملوث پانچ اہلکاروں کو نوکریوں سے معطل کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ مقامی عدالت نے ان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں تفتیش کی غرض سے پولیس کی حراست میں دے دیا ہے۔

اسامہ کے چچا نوید ستی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچے کے جھگڑے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ ان کے والد نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا تھا۔

دوسری طرف لوگوں کی بڑی تعداد اسامہ ستی کے قتل کی مذمت اور تعزیت کے لیے ان کے گھر آ رہے ہیں جبکہ وہاں آنے والوں میں وفاقی وزرا بھی شامل تھے جن میں وزیر داخلہ شیخ رشید، سی این سی او کے سربراہ اسد عمر، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور عثمان ڈار شامل ہیں۔

شیخ رشید نے اس موقع پر گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسامہ ستی کے قتل کی ایف آئی آر میں قتل کے علاوہ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

اسامہ ستی کے رشتہ داروں نے ان کے گھر آنے والے وزرا سے شکایت کی کہ اسلام آباد پولیس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور مقتول کے خاندان کے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ انہیں ابھی تک واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی گئی بلکہ خاندان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ واقع سری نگر ہائی وے پر کس مقام پر ہوا تھا۔

اسامہ کے رشتہ داروں نے کہا کہ مقتول کی گاڑی پر سامنے سے گولیاں برسائی گئیں جبکہ گاڑی روکنے کی کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی جبکہ ٹائروں پر بھی گولیوں کے نشانات نہیں ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے بعض افسران کے مطابق اسامہ گاڑی کو بھگا کر آٹھ کلومیٹر تک لے گئے تھے جبکہ ان پر پہلے بھی ایک مقدمہ درج ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان