پاکستان میں توانائی کا بحران: مسائل اور ممکنہ حل

پاکستان کو توانائی کے حوالے سے درپیش مسائل ہیں کیا اور مستقبل میں یہ کیا شکل اختیار کر سکتے ہیں نیز ان کا حل کیا ہے؟

(اے ایف پی)

سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات پاکستان کے دو سو سے زیادہ شہروں میں بجلی کی ترسیل کا سلسلہ یک دم منقطع ہو گیا جو تاحال پوری طرح بحال نہیں ہو سکا۔

ہفتے کو سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) نے بھی سندھ اور بلوچستان میں اکثر صنعتوں کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کر دی جب کہ اطلاعات کے مطابق سوئی ناردرن گیس پائپ لائن (ایس این جی پی ایل) بھی پنجاب میں کارخانوں کے لیے گیس کی بندش کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔

پاکستان میں آئے دن گیس، تیل اور بجلی سے متعلق اس طرح کے بحران جو عام شہری کی تکالیف میں اضافے کے علاوہ ملک کی مجموعی صنعتی پیداوار کو بھی متاثر کرتے ہیں اور جن کے باعث معاشی ترقی سست روی کا شکار ہوتی ہے، ان کے بارے میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں ’کسی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد توانائی کا شعبہ ہے جسے مضبوط کیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا ’اونچی عمارت کھڑی کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں ناگزیر ہوتی ہیں اسی طرح معاشی ترقی کے اہداف توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہوئے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے۔‘

پاکستان اکنامک سروے 2019۔2020 کے مطابق: ’اس وقت )پاکستانی) توانائی کے شعبے کو طلب و ضرورت میں فرق کا سامنا ہے، جسے ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘

پاکستان کو توانائی کے حوالے سے درپیش مسائل ہیں کیا اور مستقبل میں یہ کیا شکل اختیار کر سکتے ہیں نیز ان کا حل کیا ہے؟ جانتے ہیں:

توانائی کے ذرائع

پاکستان میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی، تیل اور گیس کو بڑے ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب کہ نیوکلئیر ذرائع، سورج اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائیوں سے بھی مستفید ہوا جاتا ہے۔

بجلی: پاکستان میں ڈیموں کا تذکرہ زیادہ ہونے کے باعث عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں بجلی پانی سے (ہائیڈل پاور) ہی حاصل کی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں بھاپ سے حاصل ہونے والی بجلی (تھرمل پاور) کا حصہ زیادہ ہے۔ مندرجہ ذیل گراف میں مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کا حصہ واضح کیا گیا ہے۔

ہائیڈل اور تھرمل ذرائع کے علاوہ پاکستان کے پاس نیوکلئیر، کوئلے، ہوا، اور شمسی توانائی سے بجلی بنانے صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔

اکنامک سروے کے مطابق 2020 کے دوران پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 35975 میگا واٹ تک پہچ گئی، جبکہ طلب کا مجموعی حجم 25 ہزار میگاواٹ رہا۔

تیل: اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی سالانہ کھپت 19.68 ملین ٹن اور پیداوار تقریبا بارہ ملین ٹن ہے جب کہ ہر سال 8 ملین ٹن سے زیادہ پٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں۔

پٹرولیم مصنوعات کی درآمد اور تقسیم و فروخت کے لیے ملک میں تیس آئل مارکیٹنگ کمپنیاں فعال ہیں جو ملک بھر میں ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ پٹرول پمپ کے ذریعہ عوام تک پٹرول پہنچاتی ہیں۔

قدرتی گیس: پاکستان میں قدرتی گیس کی یومیہ پیداوار چار ارب مکعب فٹ ہے جبکہ ضرورت اس سے دو ارب مکعب فٹ یومیہ زیادہ ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) درآمد کی جاتی ہے جس پورٹ قاسم پر فی الحال دو پلانٹس موجود ہیں۔

 ملک میں جہاں قدرتی گیس کی ترسیل موجود نہیں ہے وہاں مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) ذریعہ توانائی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے جس کا ایک تہائی حصہ مقامی طور پر پیدا کیا جاتا ہے۔

مسئلہ ہے کیا؟

گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی اور گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔

ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔

توانائی سے متعلق بحران ہر شعبے کے لیے مخصوص اور پیچیدہ ہیں تاہم ہم یہاں بجلی اور گیس کے شعبوں کے مسائل پر الگ الگ گفتگو کریں گے۔

بجلی: اوپر کی سطور میں ذکر ہو چکا ہے پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت ضرورت سے زیادہ ہے، تو پھر ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ کیا ہے؟

یونیورسٹی آف گجرات کی جویریہ بنت فہیم اپنے ریسرچ پیپر ’پاکستان میں توانائی کا بحران‘ میں لکھتی ہیں: ’بجلی بنانے والے کئی یونٹس اپنی صلاحیت کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں، بہت سے ڈیمز کے کئی ٹربائن بند پڑے ہیں، جبکہ بہت سے ایندھن سے بجلی بنانے والے کارخانے بھی برسوں سے بند ہیں۔‘

ڈاکٹر فرخ سلیم اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’ہم بجلی تو کافی پیدا کر لیتے ہیں لیکن اس کی تقسیم کا نظام ناقص ہے جس کے باعث صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی توانائی ضائع ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کی تقسیم و ترسیل کا نظام بمشکل اٹھارہ سے انیس میگا واٹ کا لوڈ ہی برداشت کر سکتا ہے جبکہ بیس فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے اور دس فیصد بجلی کے بل ادا ہی نہیں کیے جاتے۔

جویریہ بنت فہیم کی تحقیق کے مطابق بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث پاکستان میں بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کو 260 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

معاشی امور اور توانائی سے متعلق موضوعات پر لکھنے والے سینئیر صحافی ذیشان حیدر کہتے ہیں کہ ڈیموں کی تعمیر سے متعلق وعدے تو بہت زیادہ کیے جاتے ہیں لیکن بھاشا ڈیم جیسے بڑے پراجیکٹس پر کام شروع ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی اکان نہیں ہے۔

بجلی کی قیمتوں پر ہوش ربا سبسڈیز نے بھی پاکستانی حکومت کو گردشی قرضوں کے منجدہار میں پھنسا رکھا ہے۔

قدرتی گیس: پاکستان میں قدرتی گیس کی کمی وجوہات میں ایل این جی کی درآمد اور قدرتی گیس کے ذخائر کی تلاش کا کام نہ ہونا ہیں۔

بزنس مین فورم کے سربراہ میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ملک میں گیس کی ضرورت پوری کرنے کا واحد حل ایل این جی کی درآمد ہے جسے بہتر طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے گزشتہ موسم گرما میں سردیوں کے لیے ایل این جی کے سودے کر لیے ہوتے تو آج اتنی مہنگی مائع گیس نہ خریدنا نہ پڑتی۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ گیس کے قدرتی ذخائر کی تلاش کا کام باکل نہیں ہو رہا جبکہ ایل این جی کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے کے پلانٹس بھی کم ہیں۔

’گزشتہ حکومتوں نے ایسے مزید پلانٹس لگانے کی کوشش کی اور نہ موجودہ حکومت کوئی ایسی کوشش کر رہی ہے۔‘

جویریہ بنت فہیم کے خیال میں ناقص پالیسی سازی، فیصلہ سازی میں ٹیکنیکل سٹاف کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی آبادی کو گیس اور بجلی کے بحرانوں کی دوسری بڑی وجوہات ہیں۔

توانائی کے مسائل کا حل

پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سرعت سے فیصلہ سازی اور موثر پلاننگ اہم ترین ضروریات ہیں۔

معاشی امور اور توانائی سے متعلق موضوعات پر لکھنے والے سینئیر صحافی ذیشان حیدر کہتے ہیں کہ دوسری بہت ساری چیزوں کے علاوہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

’ملک میں سیاسی عدم استحکام نے اصلاحات کو ایک تکلیف دہ عمل بنا کر رکھ دیا ہے لیکن ان کے بغیر دوسرا کوئی حل بھی نہیں ہے اور کسی نہ کسی حکومت کو یہ کرنا ہی پڑے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ بجلی کے ترسیل و تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے پر کم از کم آٹھ ارب روپے کے خرچ کا اندازہ لگایا گیا ہے لیکن اس کے بغیر بجلی سے متعلق بحرانوں پر قابو پانا مشکل ہو گا۔

جویریہ بنت فہیم اپنے تحقیقاتی مقالے میں تجویز پیش کرتی ہیں کہ ملک میں قانون پر عمل اور سخت سزائیں دے کر بجلی کی چوری پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے گیس کی کمی پر قابو پانے کے لیے ایل این جی کی درآمد اور مائع گیس کو دوبارہ گیس بنانے کے پلانٹس کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذخائر کی تلاش پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ’اس پر حکومت کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، سب کچھ ایکسپلوریشن کمپنیز کرتی ہیں۔‘

امریکی ادارے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق پاکستان میں 105 کھرب مکعب فٹ گیس کے زیر زمین ذخائر موجود ہیں جنہیں ابھی تک تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

موجودہ حکومت ملک میں بجلی اور گیس کی کمی پر قابو پانے کے لیے کئی پراجیکٹس کا اعلان کر چکی ہے اور چند ایک پر کام شروع بھی ہو چکا ہے تاہم ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے لمبا عرصہ درکار ہے اور ایسی صورت حال میں توانائی کے بحران کا فوری حل نظر نہیں آتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان