اوبر ڈرائیور کا قتل: 'مردہ خانے میں پڑی لاش میرے بیٹے کی ہی تھی'

جنوری کی چار اور پانچ تاریخ کی درمیانی شب لاہور میں ایک آن لائن ٹیکسی سروس کے 25 سالہ ڈرائیور محمد علی کو آخری مسافر نے گولی مار کر قتل کر دیا، جس کے بعد اس حوالے سے سوال اٹھے کہ کیا آن لائن ٹیکسی سروسز اپنے ڈرائیورز کو بھی کسی قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہیں؟

باغبان پورہ کے رہائشی محمد علی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے (تصویر: پولیس)

آئے دن خبروں یا سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے آن لائن ٹیکسی سروسز یا ان کے ڈرائیورز سے متعلق شکایات سامنے آتی ہیں۔ کبھی پیسوں کا معاملہ ہوتا ہے تو کبھی ہراساں کیے جانے کا معاملہ۔ ایسے میں مسافروں کے پاس متعلقہ کمپنی کو شکایت کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے اور کمپنی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ مسافر کی جان و مال محفوظ ہو، لیکن کیا آن لائن ٹیکسی سروسز اپنے ڈرائیورز کو بھی کسی قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہیں؟

یہ سوال اس وقت پیدا ہوا، جب جنوری 2021 کی چار اور پانچ تاریخ کی درمیانی شب لاہور میں ایک آن لائن ٹیکسی سروس کے 25 سالہ ڈرائیور محمد علی کو ان کی ٹیکسی میں بیٹھنے والے آخری مسافر نے گولی مار کر قتل کر دیا۔

باغبان پورہ کے رہائشی محمد علی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے والد محمد ظہیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'علی میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ دو برس پہلے ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں نے تین برس پہلے ان کی شادی کر دی تھی اور ان کی بیٹی دو برس کی ہے۔ پہلے وہ کسی اور کی گاڑی کو آن لائن ٹیکسی کے طور پر چلاتے تھے مگر میں نے پیسے جوڑ کر چند ماہ قبل انہیں ایک چھوٹی سی گاڑی لے دی تھی جسے وہ آن لائن ٹیکسی سروس اوبر(UBER) کے لیے چلاتے تھے۔'

محمد ظہیر نے واقعے کے حوالے سے بتایا: 'اس روز جب رات گئے علی کا موبائل بند ہوا تو ہمیں فکر ہوئی۔ علی کی بیوی نے چار جنوری کی رات 12 بجے انہیں کال کی۔ انہوں نے فون نہیں اٹھایا تو ہم نے سوچا کہ وہ خود ہی فون کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی بیوی رات گئے تک فون ملاتی رہیں مگر پھر ان کا نمبر بند ہوگیا۔ میں اس دوران سو گیا۔ رات ساڑھے تین بجے میری دوبارہ آنکھ کھلی تو مجھے میری بہو نے بتایا کہ علی گھر بھی نہیں آئے اور ان کا موبائل بھی بند ہے۔'

'میں اس بات سے بے انتہا فکر مند ہو گیا اور میں نے 15 پر کال کی، جس کے بعد مجھے شالیمار پولیس سٹیشن سے کال آئی اور مجھے تھانے بلایا گیا۔ تھانے والوں نے علی کے اغوا کی ایف آئی آر درج کی۔ اس کے بعد میں گھر آیا۔ اس وقت فجر کی نماز کا وقت تھا میں نماز پڑھنے مسجد میں گیا اور واپس آنے کے آدھے گھنٹے بعد مجھے کال آگئی کہ ریواز گارڈن سے ایک لاش ملی ہے، لہذا میں دو چار لوگوں کے ہمراہ میو ہسپتال کے مردہ خانے آ کر شناخت کر لوں۔ میں ادھر گیا تو وہ واقعی میرے بیٹے کی ہی لاش تھی۔'

مقتول علی کے والد نے مزید بتایا: 'چار تاریخ کی رات محسن نامی شخص نے اپنے ایک دوست کے لیے رائیڈ بک کروائی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مسافر نے کسی خاتون سے ملنے کے لیے ساندہ جانا تھا۔ مسافر کا اس خاتون سے کوئی تعلق تھا اس لیے وہ ان کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرتا رہا، جب انتظار زیادہ ہوا تو علی نے مسافر کو رائیڈ ختم کرنے کا کہا، جس پر ان کا آپس میں کوئی جھگڑا ہوا اور مسافر نے علی کو پیچھے سے گولی مار دی۔ جس سے علی کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔ مذکورہ مسافر نے علی کی لاش کو وہیں ایک قریبی پارک میں پھینکا اور اس کی گاڑی اور موبائل دونوں ساتھ لے گیا۔'

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ علی کی آن لائن ٹیکسی میں سفر کرنے والے ملزم طاہر نے چند روز قبل خود ہی گرفتاری دے دی۔ طاہر کے بیان کے مطابق ان کے لیے رائیڈ ان کے دوست محسن نے بک کروائی تھی، جو علی کے قتل کے بعد سے پولیس حراست میں تھے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمال نے بتایا: 'محسن کا اس سارے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ طاہر کیولری گراؤنڈ سے علی کی گاڑی میں بیٹھا اور انہیں ساندہ میں کسی خاتون سے ملنے آنا تھا۔ طاہر نے آئس کا نشہ بھی کیا ہوا تھا۔'

شارق جمال نے مزید بتایا کہ 'طاہر کے بیان کے مطابق خاتون کے شوہر بیرون ملک مقیم ہیں، اسی لیے طاہر ان سے گاہے بگاہے ملنے آتے رہتے تھے۔ خاتون سے ملنے کے بعد طاہر کا کہیں ڈکیتی کا منصوبہ بھی تھا۔'

بقول ڈی آئی جی: 'طاہر کے بیان کے مطابق جب وہ خاتون کے گھر کے باہر پہنچے تو خاتون نے انہیں انتظار کرنے کو کہا۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد جب علی نے رائیڈ ختم کرنے کا کہا تو دونوں میں تلخ کلامی ہو گئی جس پر طاہر نے علی سے ہی ڈکیتی کی واردات بھی کرلی، ان کا فون اور پیسے ان سے چھین لیے اور انہیں گولی مار دی۔ مارنے کے بعد انہوں نے قریب ہی ریوزگارڈن کے پاس ایک پارک کے قریب عللی کی لاش کو چھوڑا اور فرار ہوگئے۔'

محمد علی کے والد اس وقت پریشان ہیں کہ علی کی بیٹی اور بیوی کا کیا بنے گا؟ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: 'پولیس نے بہت تعاون کیا ہے۔ اوبر کمپنی نے بھی کسی انشورنس کمپنی کے ذریعے علی کی  لائف انشورنس کروائی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں دستاویزات بھیج دی ہیں۔ انشورنس کے پیسے دو لاکھ 70 ہزار روپے ہیں جبکہ تدفین وغیرہ کے  اخراجات کے لیے 50 ہزار روپے ہیں، لیکن یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میں خود ایک چھوٹی موٹی ملازمت کرتا ہوں۔ اتنے پیسوں میں ساری زندگی تو نہیں گزر سکتی ۔'

اس سارے معاملے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آن لائن ٹیکسی کمپنیاں اپنے کسٹمرز کی حفاظت کو تو مدنظر رکھتی ہیں، لیکن کیا وہ اپنے ڈرائیورز کے لیے بھی کوئی حفاظتی اقدامات کرتی ہیں؟ رابطہ کرنے پر اوبر کے کسی افسر نے تو ہم سے بات نہیں کی، تاہم انہوں نے اپنی کمپنی پالیسی ہمیں ضرور بھیج دی، جس کے مطابق:

'اوبر ڈرائیور ٹرپ کی درخواست قبول کرنے کے لمحے سے لے کر ٹرپ ختم ہونے تک محفوظ ہے۔ اگر آپ اوبر ٹرپ کے دوران کسی حادثے میں زخمی ہو گئے ہیں تو ہنگامی طبی علاج کے اخراجات میں مدد حاصل کریں۔'

'اگر آپ کو لگنے والے چوٹ یا زخم آپ کو ڈرائیونگ سے روکتا ہے تو آپ ضائع ہونے والے کمائی کے مواقع کے لیے بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔'

'اگر آپ پاکستان میں اوبر ڈرائیور پارٹنر ہیں تو ڈرائیور کے چوٹ سے تحفظ، ہنگامی طبی علاج کے اخراجات اور دیگر اخراجات کے حوالے سے کمپنی مدد کر سکتی ہے۔'

ایسی صورتحال میں ڈرائیور کو کتنا کوور ملے گا؟

 اوبر پالیسی کے مطابق:

ٹرپ کے دوران میڈیکل کوور کی مد میں ایک لاکھ روپے کی باز ادائیگی،ایمبولینس کے اخراجات کے لیے15 ہزار روپے تک کی باز ادائیگی جبکہ تین ہزار روپے کی فوری ادائیگی کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرپ کے دوران موت اور اس کے بعد تدفین کی صورت میں یک مشت 50 ہزار روپے جمع دو لاکھ 70 ہزار روپے کی ادائیگی لواحقین کو کی جائےگی۔

اگر اوبر ڈرائیور ٹرپ کے دوران کسی مستقل معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں تو انہیں یک مشت دو لاکھ70 ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔

اگر اوبر ڈرائیور دوران ٹرب زخمی ہو جائیں اور 48 گھنٹے سے زیادہ کسی ہسپتال میں زیر علاج رہیں تو کمپنی انہیں 30 روز تک 500 رپے یومیہ ادا کرے گی۔

اس کے علاوہ کمپنی اپنے ہر ڈرائیور کو ٹریک کرتی ہے۔ جہاں کسٹمر کو ڈرائیور کا فیڈ بیک دینے کی سہولت حاصل ہے وہیں ڈرائیور بھی اپنی رائیڈ کے بارے میں فیڈ بیک دے سکتا ہے۔ جن کسٹمرز کی ریٹنگ کم ہو، انہیں سروس نہیں دی جاتی۔ ساتھ ہی ساتھ کمپنی جی پی ایس ڈیٹا اور سینسرز کی مدد سے اپنے ڈرائیور کو ٹریک کرتی ہے اور اگر کسی سٹاپ پر رائیڈ کے دوران گاڑی معمول سے زیادہ دیر تک کھڑی رہے تو کمپنی ان ڈرائیورز سے رابطہ کرکے پوچھتی ہے کہ انہیں کوئی مدد تو درکار نہیں؟

اس کے علاوہ اوبر کی ایپ میں ڈرائیور کے لیے بھی ایمرجنسی بٹن کی سہولت ہے جسے ڈرائیور کسی بھی ناگہانی صورتحال میں دبا کر کمپنی کو آگاہ کرسکتا ہے کہ وہ مشکل میں ہے۔

ان ساری سہولیات کا محمد علی کو علم تھا یا نہیں اور کیا انہوں نے ان میں سے کسی سہولت کو استعمال کیا یا نہیں، اس بارے میں کچھ بھی کہنا اب ممکن نہیں کیونکہ علی اس دنیا سے جاچکے ہیں جبکہ اوبر انتظامیہ نے بھی اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان