کیپیٹل ازم آن وینٹی لیٹر 

امریکہ میں چین کے خلاف پکنے والا نفرت سے بھرپور لاوا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی پیک منصوبے سے کیپٹیل ازم کے بچاریوں کے پیٹ میں کتنے مروڑ اٹھتے ہوں گے۔

کیلی فورنیا میں ایک خاتون نے کرونا وبا کی وجہ سے  عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کے دوران  ’مجھے کیپٹل ازم سے پیار ہے‘ کی عبارت والا بینر اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی)

یہ دنیا انتہائی حیران کن جگہ ہے اس میں لاکھوں افراد کی ہلاکت کے باوجود کرونا وائرس ایسی عالمی وبا سے متعلق متعدد سازشی نظریے گردش کر رہے ہیں۔ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بے لگام پلیٹ فارم پر بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ 

اسی شور شرابے حال ہی میں امریکی ای کامرس کمپنی ’ایمازون‘ نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دو کتابوں کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ ایک کتاب کرونا (کورونا) وائرس سے متعلق متفرق سازشی نظریات سے عبارت ایک ایسے مصنف کے تحریر تھی جس نے کووڈ-19 کو بے بنیاد شوشا سمجھ کر اسے جھٹلانے کے لیے کتاب میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ 

 کتاب پر پابندی کے فیصلے کو چینلج کیا گیا، جس کے بعد’ایمازون‘ کو اپنے نیٹ ورک پر اس کی فروخت کی اجازت دینا پڑی۔ اس طرح عالمی وبا سے متعلق سازشی نظریے سے بھرپور  کتاب ’ایمازون‘ پر بکنے لگی۔ 

ایک دوسری کتاب میں مصنفہ سارہ فلاؤنڈرز نے دنیا، امریکہ اور بالخصوص چین میں کووڈ-19 کے حوالے سے ہونے والی بحث کا موازنہ پیش کیا۔ انھوں نے مستند اعداد وشمار کی روشنی میں ثابت کیا کہ چین عالمی وبا کو کنڑول کرنے میں کامیاب رہا جبکہ امریکہ ایسی عالمی طاقت ابھی تک ناکام چلی آ رہی ہے۔ یہی وجہ سے نئے امریکی صدر نے اپنی ترجیحات کا تعین کرتے وقت عالمی وبا پر قابو پانا اہم نقطہ قرار دے رکھا ہے۔

سارا فلاؤنڈرز کی کتاب کا عنوان Capitalism on a Ventilator: The Impact of COVID-19 in China & the U.S.  امریکہ کے لیے ایک فکری تازیانہ ثابت ہوا۔  مصنفہ نے کتاب کی ایمازون پر فروخت کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا،  لیکن ان کی کتاب کو آن لائن فروخت کی اجازت نہ ملی۔ 

سارہ فلاؤنڈرز کی کتاب میں کھل کر اس بات پر بحث کی گئی: کیا جو بائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ دنیا میں مزید جنگوں کی راہ ہموار کرے گی؟ بائیڈن کی انتخابی مہم کے وقت خواہشات اور امیدوں کا گراف ناقابل یقین حد تک اونچا کر دیا گیا تھا، جسے دیکھتے ہوئے کتاب میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کیا گیا تجزیہ امریکی کار پردازوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور اس طرح کتاب کی آن لائن فروخت پر پابندی لگا دی گئی حالانکہ ایمازون پر اس سے زیادہ متنازع کتابیں اور اشیا کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ 

امریکی انتخاب کے نتائج میں اہم بات بائیڈن کی کامیابی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست تھی کیونکہ وہ نسل پرستی، غرور اور جارحانہ سیاست کا جو داغ دار ترکہ چھوڑ کر گئے ہیں، اسے دھونے میں امریکہ کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔

انتخاب کا شور تھم چکا ہے اور وائٹ ہاؤس ٹرمپ کے بوجھ سے آزاد ہو گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جو بائیڈن  اپنی پالیسیوں میں کسی ٹھوس تبدیلی کا اشارہ نہیں دے رہے۔اب تک سامنے آنے والی کابینہ کے ناموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید نہ ختم ہونے والی جنگوں کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلنا امریکہ کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ 

دنیا بھر میں 800 امریکی فوجی اڈے اور مختلف ملکوں میں اس کی دسیوں ہزار سپاہ تعینات ہیں۔ جن ملکوں کے حکمران امریکی پالیسیوں کے سامنے سرجھکانے سے انکار کرتے ہیں، وہاں نہتے اور معصوم لوگوں کو پابندیاں لگا کر بھوکے مارنے کی پالیسی ایک کھلا راز ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی امریکی پابندیوں کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ 

امریکی عوام کو احساس نہیں کہ ان کا ملک جنگ کی حالت میں ہے کیونکہ قتل اور ڈرون حملے روزانہ کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے امریکہ کو دنیا بھر کے عسکری اخراجات سے بڑھ کر اپنی فوجی چوکسی اور تیاری پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔

ایسے میں اگر سارہ جیسی بیدار ضمیر امریکی دانشور قلم اٹھاتی ہیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہے کہ امریکہ میں صحت عامہ کا کوئی منظم پروگرام کیوں نہیں۔ جن چیزوں کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے لیے اشد ضرورت ہے، انہیں انجام دینے کے لیے مطلوبہ وسائل میسر نہیں جبکہ دوسری جانب ٹریلین ڈالرز جنگی جنون پر صرف ہو رہے ہیں۔

کاش سابق صدر اوباما کا یہ قول سچ ثابت ہو جائے کہ ’جو بائیڈن اپنے اقتدار میں کسی جنگ کی حمایت نہیں کریں گے۔‘ مشہور کہاوت ہے کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،‘ امریکہ کی حد تک تو یہ مقولہ سو فیصد حد تک درست ہے کیونکہ امریکہ میں صدر کے اکیلے اعلانات الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ وہاں ایک بڑی مؤثر اور منظم اسٹبلشمنٹ ہے، جسے دنیا بھر  میں 18 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک معلومات فراہم کرتے ہیں۔ امریکی صدر کے مشیران کی فوج ظفر موج، تھنک ٹینکس اور سب سے بڑھ کر فوج  وتیل کی صعنت اور بینکنگ سیکٹر کا دباؤ مل کر ان کی امن یا جنگ کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔

 اوباما اور بائیڈن ایک سے زائد مرتبہ فوجی اقدامات کے حق میں بات کر چکے ہیں۔ وہ نیٹو میں توسیع، یوکرائین میں کارروائی، عراق اور افغانستان میں فوج رکھنے کے حامی رہے ہیں۔ بائیڈن کبھی امن کے حق میں نہیں بولے۔ خوش فہمی کا لبادہ اتار کر ہمیں امریکی پالیسیوں کے اصل ماخذ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے نہ صدور کی ذاتی حیثیت میں دیے گیے بیانات پر۔

چین کی طرف سے امریکہ کو درپیش چیلنجز دیکھتے ہوئے یہ بات حقیقت معلوم ہونے لگی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدگی دراصل ’سرد جنگ‘ہے۔ اوباما اپنے دور حکومت میں جس pivot asia پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اسی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی فوج کو ری فوکس کیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین کے گرد امریکہ کی بیڑیوں کا جال بچھایا جا چکا ہے۔ ساؤتھ چائینا سمندر میں امریکی میرینز کی موجودگی امریکہ کی سرحد سے ہزاروں میل دور کوئی دفاعی اقدام قرار نہیں دی سکتی۔ ٹرمپ کی نسلی امتیاز کی پالیسی صرف امریکہ کو داخلی طور ہی نہیں بلکہ چین کو بھی گھائل کر رہی ہے۔ تجارتی بائیکاٹ اور طلبہ پر امریکی جامعات میں تعلیم کے دروازے بند کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

دونوں ملکوں کے تعاون سے ہونے والے ثقافتی اور آرٹ منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں۔ ہواوے سمیت بڑی بڑی دوسری چینی کمپنیوں سے کاروبار اور سفارتی تعلقات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو 40 برس سے جاری تھے۔ ایسی ’سرد جنگ‘ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ہے۔ 

سی این این سکرین سے چمٹے امریکی عوام نہیں جانتے کہ ان کی حکومت کے لڑاکا بحری جہاز چین کے اندر ہزار کلومیٹر تک پہنچ چکے ہیں۔ اوسط امریکی شہری، چین کی تاریخ سے نابلد ہے۔ انہیں چین کی ایک ہی تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں وہ ایک غریب اور ترقی پذیر ملک کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انقلاب کے بعد چین، امریکہ کے لیے انتہائی خطرہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے روزانہ کئی جتن ہو رہے ہیں۔

امریکی سیاست کی غلام گردشوں میں چین کے خلاف نفرت کا لاوا پکتا دیکھ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمسائے ملک کے تعاون سے مکمل کیا جانے والا ’ون بلٹ، ون روڈ‘ المعروف ’سی پیک‘ منصوبہ سرمایہ داری کے بچاری کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ 

 کووڈ۔19 کا مقابلہ کرنے میں امریکی ناکامی کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کے عظیم مصلح  ابو الاعلیٰ مودودی کی تاریخی پیش گوئی ذہن میں گونچ رہی ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔‘

یہی حقیقت خود امریکی شہری سارہ فلاؤنڈرز نے بیان کرنے کی کوشش کی تو اظہار آزادی، شہری حقوق اور جمہوریت کا راگ آلاپنے والوں نے کتاب ’کیپیٹل ازم آن وینٹیلیٹر‘ کو دنیا بھر کے لیے شجر ممنوعہ بنا ڈالا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ