عمر شیخ نے ہی میرے بھائی کے اغوا کا منصوبہ بنایا: ڈینیئل پرل کی بہن

پاکستان میں قتل کیے جانے والے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی بہن تمارا کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی عدالت چاہے کچھ بھی کہہ لے، ڈینیئل کے قتل میں عمر شیخ کا ہاتھ ہے۔‘

احمد عمر سعید شیخ (دائیں)  پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں، انہیں ڈینیئل پرل  (بائیں) کے اغوا کے چند روز بعد گرفتار کیا گیا تھا (فائل تصاویر: اے ایف پی)

پاکستان میں قتل کیے گئے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی بہن کا کہنا ہے کہ ’چاہے عدالت کچھ بھی کہہ لے‘ انہیں یقین ہے کہ عمر شیخ نے ہی ان کے بھائی کے اغوا اور قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ 

برطانوی نژاد پاکستانی احمد عمر سعید شیخ کو انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے 2002 میں ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، جس کے بعد ایپل کرنے پر سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔ 

تاہم ڈینیئل پرل کی بہن تمارا پرل کا کہنا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عدالت کیا کہتی ہے، ان کی نظر میں عمر شیخ ہی ان کے بھائی کے اغوا کے منصوبہ ساز تھے۔

جمعرات (28 جنوری) کو پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث چاروں افراد کو بری کرنے کے فیصلے نے امریکی حکومت کے ساتھ ساتھ مقتول صحافی کے اہل خانہ اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں کو بھی حیران کر دیا۔ 

عدالت نے عمر شیخ کی بریت کے خلاف ڈینیئل پرل کے اہل خانہ اور سندھ حکومت کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیلوں کو بھی مسترد کر دیا۔

تمارا پرل نے ’عرب نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم سب جانتے ہیں کہ عمر شیخ نے ڈینی کے اغوا کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے جھوٹ نے ڈینی کو 23 جنوری 2002 کو کراچی میں ایک انٹرویو کے لالچ میں پھنسایا تھا اور ایک ماہ بعد ڈینی ہلاک ہوگیا تھا۔ تین ماہ بعد اس کی لاش ایک نامعلوم قبر سے ملی۔ یہی حقیقت ہے، چاہے عدالت جو مرضی کہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’اس کیس میں مدعا علیہان اور وہ ججز جنہوں نے انہیں آزاد کیا ہے، سچ جانتے ہیں، لیکن جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ ڈینی کو واپس نہیں لا سکتا لیکن یہ جھوٹ بہت زچ کرنے والا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سچ سامنے آ جائے گا۔‘

 2002 میں گرفتاری کے کچھ ماہ بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمر شیخ کو سزائے موت سنا دی تھی جبکہ دیگر تین ملزمان کو بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان تمام افراد پر ڈینیئل پرل کے قتل میں شامل ہونے کا الزام تھا اور انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ تاہم گذشتہ اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے 18 سال پرانے اس کیس میں ان افراد کو بری کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

بریت کے اس فیصلے کے خلاف سندھ حکومت اور ڈینیئل پرل کے اہل خانہ دونوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن جمعرات کو تین رکنی بینچ نے ان دونوں اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمر شیخ کی رہائی کا حکم جاری کیا۔

جمعرات کو ہی پاکستانی حکومت نے اٹارنی جنرل کے دفتر کے ذریعے بیان جاری کیا کہ وہ ڈینیئل پرل کے کیس کے حوالے سے سندھ حکومت کی مکمل حمایت کرتی ہے اور جلد سے جلد سپریم کورٹ کے اس بریت کی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی جائے گی۔

وائٹ ہاؤس نے بھی پاکستانی سپریم کورٹ کے اس حکم پر غم و غصے کا اظہار کیا اور وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پساکی نے ایک بیان میں کہا: ’یہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے متاثرین کے لیے توہین آمیز ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ڈینیئل پرل کے خاندان کو انصاف دلوانے کے ارادے پر قائم ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی جانب سے ماضی میں عمر شیخ کو سزا دلوانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہم اٹارنی جنرل کے بیان کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم عمر شیخ کے خلاف امریکہ میں قانونی کارروائی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں تاکہ انہیں ایک امریکی شہری کے خلاف ہولناک جرائم کا ارتکاب کرنے پر سزا دی جا سکے۔‘

تاہم عمر شیخ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو امریکہ کے حوالے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے محمود اے شیخ نے سوال اٹھایا کہ امریکہ کس قانون کے تحت عمر شیخ کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’یہ مقدمہ امریکی حکومت کی لاعلمی میں نہیں چلایا جا رہا تھا، امریکی حکومت اس میں ایف بی آئی اہلکاروں کو پاکستان بھیج چکی ہے اور وہ پولیس کے ساتھ اس مقدمے کی تفتیش میں شامل تھی۔ وہ عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی قوانین کے تحت کسی شخص پر ایک ہی جرم میں دو مختلف مقدمے نہیں چلائے جا سکتے۔

ان کے مطابق اگر ایک شخص کو پاکستان کی عدالت میں مقدمے کے بعد بری کر دیا گیا ہے یا سزا سنا دی گئی ہے تو انہیں اس جرم کے لیے دوبارہ مقدمہ چلا کر سزا نہیں دی جا سکتی۔ امریکی قوانین کے مطابق بھی ایسا ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’امریکی حکومت عمر شیخ کو حاصل کرنے کی خواہش کر سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پاکستانی حکومت اپنے آئین پر عمل کرے گی اور اپنے شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرے گی۔‘

بدھ کو عمر شیخ کے وکیل نے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ ان کے موکل نے عدالت کے نام ایک خط میں ڈینیئل پرل کے قتل میں ’معمولی سا کردار ادا کرنے‘ کا اعتراف کیا تھا۔ یہ خط عدالت میں دو ہفتے قبل جمع کرایا گیا تھا لیکن بدھ کو عمر شیخ کے وکیل نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ خط ان کے موکل کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

اس تین صفحات پر مبنی خط میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ عمر شیخ نے ڈینیئل پرل کے قتل میں کیا ’معمولی‘ کردار ادا کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا