’ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو نتائج سنگین ہوسکتے ہیں‘

ڈینیئل پرل قتل کیس سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا ہے کہ اگر ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

ڈینیئل پرل امریکی تحقیقاتی صحافی تھے جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل سے منسلک تھے (اے ایف پی/وال سٹریٹ جرنل/فائل فوٹو)

ڈینیئل پرل قتل کیس سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا ہے کہ اگر ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

یہ بات اٹارنی جنرل نے درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ کے اس سوال کے جواب میں کہی جس میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کا ملزمان کی رہائی کا فیصلہ کیسے معطل کر دیں؟

 عدالت نے حراست میں 24 گھنٹے کی توسیع کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سے مقدمے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے۔

سندھ حکومت کی درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کےآغاز میں معاون وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ احمد عمر شیخ کے وکیل محمود اے شیخ علیل ہیں اس لیے مقدمے کی سماعت آئندہ ہفتے کے لیے ملتوی کی جائے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم اس مقدمے کو سننا چاہتے ہیں۔ یہ ایک شہری کا معاملہ ہے۔ ہم جائزہ لیں گے کہ عمر شیخ کو کیوں حراست میں رکھا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔ احمد عمر شیخ کو حراست میں رکھنے کے حکمنامے میں متعدد بار توسیع کی گئی ہے۔ حکومت سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کسی شہری کو یوں حراست میں رکھا جا سکتا ہے؟‘

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی ریمارکس دیے اور کہا کہ ’ہمیں وجوہات بتائیں کہ احمد عمر شیخ کو ابھی تک رہا کیوں نہیں کیا گیا؟‘

اٹارنی جنرل نے روسٹرم پہ جا کر کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت وفاق کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، عدالت نے قتل کے مرکزی مقدمہ میں وفاق کو نوٹس جاری نہیں کیا، جہاں قانون کی تشریح کرنا ہو وہاں اٹارنی جنرل کو نوٹس لازمی ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے مزید کہا کہ ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کے مقدمے کے عالمی اثرات مرتب ہوں گے، سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر ملزمان کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔

اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ’آپ تو فریق ہی نہیں ہیں ہم نے تو مقدمہ احمد عمر شیخ کے وکیل کو سننے کے لیے مقرر کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس سجاد علی شاہ نے معاون وکیل سے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں عمر شیخ کی حراست کا حکم کب ختم ہوا؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یکم دسمبر کو حراست کا حکم ختم ہو گیا تھا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس کرنے یا نہ کرنے سے متعلق جائزہ لینے کے لیے آرڈر شیٹ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزم عمر شیخ اور دیگر کی رہائی کا حکم دیا تھا جس کے بعد سے سفارتی سطح پر امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمودقریشی کو ٹیلی فون کر کے ناراضگی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس پر پاکستانی وزیر خارجہ نے انہیں انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی۔

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل بھی دائر کر دی ہے جس کی ابھی سماعت ہونا باقی ہے جبکہ ڈینیئل پرل کے والدین اور وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں بھی دائر کی جائیں گی۔

وفاق نے نظر ثانی درخواستوں کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

ڈینیئل پرل کون تھے؟

ڈینیئل پرل امریکی تحقیقاتی صحافی تھے جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل سے منسلک تھے اور 2002 میں پاکستان میں شدت پسندوں سے متعلق خبر پر کام کرنے آئے تھے۔

تاہم انہیں کچھ عرصے بعد ہی کراچی سے اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ انتہاپسندوں سے متعلق ایک خبر پر کام کر رہے تھے۔

ڈینیئل پرل کو اغوا کے بعد چند مطالبات بھی کیے گئے تھے مگر بعد ازاں انہیں دوران حراست قتل کر دیا گیا۔

پرل کو مارنے سے قبل مجرمان کی جانب سے ان کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں انہیں زنجیروں میں جھکڑا دکھایا گیا تھا۔ اغوا کے ایک ماہ بعد ان کی لاش ملی تھی۔ جو امریکہ کے حوالے کر دی گئی تھی۔

ڈینیئل پرل امریکی تحقیقاتی صحافی تھے جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل سے منسلک تھے اور 2002 میں پاکستان میں شدت پسندوں سے متعلق خبر پر کام کرنے آئے تھے۔

تاہم انہیں کچھ عرصے بعد ہی کراچی سے اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ انتہاپسندوں سے متعلق ایک خبر پر کام کر رہے تھے۔

ڈینیئل پرل کو اغوا کے بعد چند مطالبات بھی کیے گئے تھے مگر بعد ازاں انہیں دوران حراست قتل کر دیا گیا۔

پرل کو مارنے سے قبل مجرمان کی جانب سے ان کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں انہیں زنجیروں میں جھکڑا دکھایا گیا تھا۔ اغوا کے ایک ماہ بعد ان کی لاش ملی تھی۔ جو امریکہ کے حوالے کر دی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان