لمز کی طالبات کا پہلا ڈیجیٹل سٹوڈنٹ فیمنسٹ میگزین ’عورت نامے‘

لاہور کی یونیورسٹی لمز کی طلبہ تنظیم فیمنسٹ سوسائٹی نے ’عورت نامے‘ میگزین کا پہلا ایڈیشن جاری کردیا جس میں خاص طور پر خواتین کے مسائل پر بات ہو گی۔

خواتین کے عالمی دن کی آمد آمد ہے۔ اس موقعے کی مناسب سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی ایک طلبہ تنظیم نے اپنی نوعیت کا پہلا ڈیجیٹل سٹوڈنٹ فیمنسٹ میگزین شائع کیا ہے۔

’عورت نامے‘ کے نام سے جاری یہ ڈیجٹل میگزین لمز کی فیمنسٹ سوسائٹی کی کاوشوں کے بعد اب آن لائن دستیاب ہے۔

لمز فیمنسٹ سوسائٹی کی صدر اور قانون کی طالب علم مرحا فاطمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس میگزین کا نام ’عورت نامے‘ اس لیے رکھا کیونکہ اس میں خاص طور پر خواتین کے مسائل پر بات ہو گی اور اس پہلے جریدے کا موضوع ہے ’یہ پہلی وبا نہیں ہے‘ (Not The First Pandemic)۔

مرحا فاطمہ کے مطابق اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ کرونا (کورونا) کی وبا تو اب آئی ہے مگر خواتین کے مسائل بھی ایک وبا بن چکے ہیں جو بہت پرانے ہیں اور ان پر کوئی بات نہیں کرتا۔

مرحا نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے اس جریدے پر گذشتہ برس کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے فیمنسٹ سوسائٹی کے سوشل میڈیا اکاونٹس اس اشتہار دیا جس میں انہوں نے لوگوں سے اپنی تحریریں، آرٹ ورک، نظمیں وغیرہ بھیجنے کے لیے کہا اور تقریباً دو ماہ تک انہوں نے لوگوں سے یہ سب وصول کیا۔

انہوں نے اس اشتہار میں موضوع بھی بتائے تھے جس کے حوالے سے لوگ اپنا کام بھیج سکتے تھے جسے اس جریدے میں چھاپا جاتا۔ مرحا نے بتایا کہ جب سب کچھ مل گیا اس کے بعد ہم نے اس میں چھانٹی کر کے کچھ چیزیں نکالیں اور انہیں اپنے جریدے کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ آئیندہ آنے والے جریدوں میں ہر بار موضوع فرق ہوگا لیکن ہوگا خواتین سے متعلق ہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا فیمنسٹ سوسائٹی بنانے پر بھی انہیں لوگوں کی کافی نفرت کا سامنہ کرنا پڑا تھا لیکن انہوں نے کام نہیں چھوڑا اور خواتین طلبہ اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کرتے رہے اور یہ میگزین بھی اسی کا حصہ ہے۔  

’عورت نامے‘ کی ڈیزائنر اور ریاضی کی طالبہ ایمن سلام نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتےہوئے بتایا کہ ’خواتین کے بہت سے مسائل ہیں جیسے ان کے گھریلو مسئلے، صحت کے مسئلے جو اکثر غیر ضروری سمجھے جاتے ہیں، ہم ان پر بات کرنا چاہتے تھے۔ خواتین کو ایک ایسا محفوظ پیلٹ فارم فراہم کرنا چاہتے تھے جہاں ان کو کوئی مسئلہ نہ بھی ہو تو وہ اپنے دل کی بات بیان کر سکیں تاکہ انہیں کوئی سنے۔‘

ایمن کا کہنا تھا کہ اس میگزین کے لیے انہیں عورت مارچ کے علاوہ خواتین صحافی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کی طرف سے بھرپور تعاون حاصل رہا۔ اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں ساری تحریریں پڑھیں اور ان کے حساب سے ان کے ساتھ تصاویر ڈیزائن کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ میگزین آن لائن دستیاب ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ شاید اس تک بہت سی خواتین کی رسائی نہ ہو لیکن انہیں یہ بھی یقین ہے کہ آن لائن مواد بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور یقیناً اس جریدے کی بازگشت سب تک نہ سہی کچھ خواتین تک تو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ فی الحال وہ اس جریدے سے پیسہ کمانے کا نہیں سوچ رہے کیونکہ اس طرح ان کا فوکس جریدہ نکالنے کے اصل مقصد سے ہٹ جائے گا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ جب وہ اور ان کے دیگر ساتھی یونیورسٹی چھوڑ کر چلے جائیں گے تو اس جریدے کا کیا ہوگا؟ اس پر ایمن اور مرحا کا کہنا تھا کہ یہ ’جریدہ لمز کی ملکیت ہے۔ ہمارا تو صرف آئیڈیا تھا جس کی اجازت ہمیں یونیورسٹی نے دی اور ہم نے اسے شروع کر دیا۔ ایک جریدہ نکالنے میں جو مسائل درپیش ہوتے ہیں ہم اس سے گزر کر آئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ جریدہ ہم ہر سمیسٹر میں نکالیں گے اور ابھی جو ہمارے ساتھ نئے طالب علم شریک ہوئے ہیں وہ اس جریدے کو لے لر بہت جوشیلے ہیں اس لیے ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بعد نئے طالب علم اسے بہت اچھے طریقے سے آگے لے کر جائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس