’مندر کا پانی پیتے‘ مسلمان نوجوان پر تشدد کی ویڈیو کے بعد گرفتاریاں

بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریبی علاقے غازی آباد میں جمعرات کو پیش آنے والا یہ واقعہ بھارت میں حالیہ برسوں میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی ایک کڑی ہے۔

پولیس نے اس جرم میں مبینہ طور پر ملوث دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے (اے ایف پی/ فائل)

مندر سے پانی پینے کے بعد بہیمانہ تشدد کا سامنا کرنے والے 14 سالہ مسلمان بھارتی نوجوان کی ’حالت بہتر نہ ہو سکی۔‘ تشدد کا نشانہ بننے والے اس نوجوان کے سر، ہاتھوں اور ٹانگوں پر زخم آئے جبکہ پولیس نے اس جرم میں مبینہ طور پر ملوث دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے نوجوان کی والدہ ستارہ حبیب کا کہنا ہے کہ ’میرے بیٹے کے ساتھ اس علاقے میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔‘ اہل خانہ کے مطابق یہ نوجوان چار بچوں میں سے سب سے چھوٹا ہے جبکہ اس پر تشدد کرنے والے دونوں افراد سے وہ واقف نہیں ہیں۔ 

بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریبی علاقے غازی آباد میں جمعرات کو پیش آنے والا یہ واقعہ بھارت میں حالیہ برسوں میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی ایک کڑی ہے۔

اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کی مذمت کی۔

ویڈیو میں ایک شخص کو ایک کم عمر لڑکے کو تشدد کا نشانہ بناتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ایک دوسرا شخص اس واقعے کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ ویڈیو میں نوجوان کو اپنی تفصیلات بتاتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ وہ اس احاطے میں داخل ہونے کی وجہ پانی پینا بتا رہا ہے۔ 

لیکن اس کے باوجود تشدد کرنے والا شخص رکتا نہیں ہے اور نوجوان کو زمین پر گراتے ہوئے اسے لاتیں اور مکے مارنا جاری رکھتا ہے۔ 

ابتدا میں نوجوان پر تشدد کرنے والے شخص کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’دونوں کے چہرے واضح ہونے چاہییں‘ جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نوجوان پر تشدد اسی لیے کیا جا رہا تھا تاکہ اس واقع کو ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جا سکے۔ 

ہفتے کے اختتام تک اس ویڈیو کو کئی بار شیئر کیا جا چکا تھا جب اس پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد سمیت کئی لوگوں کی توجہ مبذول ہو چکی تھی۔ جنہوں نے اس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

بھارت کے ٹوئٹر صارفین نے کم عمر نوجوان سے معذرت پر مبنی ایک ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرنا شروع کر دیا۔

ایسا کرنے والے صارفین میں سیاست دان اور معروف شخصیات شامل تھیں جنہوں نے متاثرہ نوجوان سے اظہار یک جہتی کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غازی آباد کی پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے جن میں ویڈیو میں نوجوان پر تشدد کرنے والا شخص بھی شامل ہے۔ اس شخص کی شناخت شرنگی نندن یادیو کے نام سے ہوئی ہے جبکہ ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کا نام شیو آنند ہے۔

ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی افراد اور سیاست دانوں نے اس نوجوان اور اس کے اہل خانہ سے رابطہ کیا ہے۔ جمعرات کے واقعے کے بعد سامنے آنے والی ویڈیو میں اس 14 سالہ نوجوان کو اس واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔  

نوجوان کا کہنا تھا کہ ’میں پانی پینے اندر گیا تھا۔ جب میں واپس آیا تو دو پنڈت میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ میں ان کے ساتھ چلوں کیونکہ انہوں نے ویڈیو بنانی ہے۔‘

نوجوان کے مطابق دو افراد اسے گھسیٹتے ہوئے مندر کی عقبی سمت لے گئے اور اس پر تشدد کرنے لگے۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ میں نے مندر کے باہر موجود دو پولیس اہلکاروں سے بھی شکایت کی لیکن انہوں نے میری بات نہ سنی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش (جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے) میں اقلیتوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تنظیم کے مطابق مسلمان تبدیلی مذہب اور گائے زبح کرنے کے قوانین سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے ہیں جبکہ صرف سال 2020 میں ان قوانین کے تحت چار ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں مشتعل ہجوم کے حملے بھی با رہا خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا