’بیٹے کو ٹرول کرنے والوں کے احتساب تک چین نہیں لوں گی‘

میں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی ٹرولز کے ساتھ گزاری ہے۔ میں یہ اپنے بچوں یا اپنے بچوں کے بچوں کے لیے نہیں چاہتی۔

کیٹی کے مطابق  کسی ٹرول کے پاس اپنے گندی پوسٹس کے پیچھے چھپنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے (BBC/Minnow Films/Gr)

میرا نام کیٹی پرائس ہے۔ میرا بیٹا ہاروی معذور ہے۔ اسے انڈر ایکٹو تھائرائڈ، جزوی اندھاپن اور ذیابیطس ہے۔ اس کے علاوہ اسے پریڈر ولی سینڈروم بھی ہے اور وہ ایک ایسی شخصیت کا بیٹا ہے جو باقاعدگی سے عوام کی نظر میں رہتی ہیں۔

 میں نے لوگوں کو ہاروی کا اس کی معذوری اور نسل کی وجہ سے مذاق اڑاتے اس وقت سے دیکھا ہے جب سے وہ ایک چھوٹا لڑکا تھا۔ اب جب وہ اٹھارہ سال کا ہو گیا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اجنبیوں سے اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ظالمانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔ اس نے خود کہا: ’لوگ میرے لیے خوفناک ہیں۔‘ ایک ماں کی حیثیت سے یہ بات میرا دل توڑ دیتی ہے۔

میری رائے میں (برطانیہ میں) موجودہ آن لائن ہارمز بل، آن لائن بدسلوکی کو ایک مخصوص مجرمانہ جرم بنانے یا وہ مقصد جو ’ہاروی لا‘ حاصل کرنا چاہتا تھا، سے کافی دور ہے۔

ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، قانون کو موثر بنانے کے لیے ہمیں لوگوں کی گمنامی کو آن لائن سے ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صارفین دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کے لیے آن لائن پلیٹ فارم کا استعمال کرکے نقصان نہ پہنچا سکیں۔

ایک خاندان کی حیثیت سے ہم نے اپنے پیارے اور معذور بیٹے کے بارے میں تصور کی جا سکنے والی بدترین قسم کا غلط استعمال دیکھا ہے – اور یہ یقینی بنانا میرا مشن ہے کہ کوئی بھی اپنے جرم، یا ایک گمنام سوشل میڈیا پروفائل کے پیچھے چھپ نہ سکے۔ جہاں کوئی جرم ہو، وہاں ان کی آسانی سے شناخت کی جانی چاہیے، پولیس کو اطلاع دی جائے اور انہیں سزا دی جائے۔

اسی لیے میں نے یہ پٹیشن شروع کی ہے۔ ہم لوگوں کو زیادتی کا شکار بنانے اور آن لائن نفرت پھیلانے والوں کا سراغ لگانے کے لیے #TrackATroll بھی قرار دے رہے ہیں۔

میں سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھولتے وقت شناخت کی مصدقہ شکل فراہم کرنے کو قانونی ضرورت بنانے کا مطالبہ کر رہی ہوں۔ جہاں یہ اکاؤنٹ اگر 18 سال سے کم عمر شخص کا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک جیسی بڑی کمپنیاں اس اکاؤنٹ کی والدین یا سرپرست کی آئی ڈی سے تصدیق کا کہیں تاکہ نامعلوم بن کر نقصان دہ سرگرمی کرنے والوں کو روکا جا سکے – اور مجرم کا سراغ لگایا جاسکے۔

ہمارے پاس پہلے ہی 142500 سے زائد دستخط ہو چکے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جا چکا ہے کہ اب پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو گی۔ مجھے خوشی ہے کہ اینڈریو گریفتھ ایم پی نے اس میں میری حمایت کرنے اور اسے اگلی سطح پر لے جانے پر اتفاق کیا ہے جہاں اس کی سماعت کی اشد ضرورت ہے۔

کسی ٹرول کے پاس اپنے گندی پوسٹس کے پیچھے چھپنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ عوام کی بہتری کے لیے ہے ۔ لیکن یہ ذاتی بھی ہے۔ میں اس وقت تک کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گی جب تک ہاروی جیسے لوگوں کو ڈرانے اور شکار بنانے والوں کو بےنقاب نہ کر دوں اور ان کا احتساب نہ کر دوں۔

سوشل میڈیا ہمیں ایک ساتھ کھینچ سکتا ہے اور مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے، لیکن یہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سب کو آن لائن ظلم کا تجربہ ہوا ہے – کچھ جیسے کہ میرے بیٹے کی طرح، دوسروں سے زیادہ۔

اب ٹرولز کے خلاف کارروائی کا وقت ہے۔ وہ لوگ جو اجنبیوں بالخصوص معذور بچوں سے اس طرح کی خوفناک باتیں کرتے ہیں ان کا سراغ لگنا چاہیے اور عدالتی نظام انہیں سزا دینے کے قابل ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر ان لوگوں کا سراغ لگایا جاتا ہے تو پھر ان کی گرفتاری بھی ہو سکتی ہےاور انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے۔ نفرت اور بدسلوکی انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ ہم سب نے گذشتہ سال وبا کے دوران نقصان برداشت کیا ہے۔ ہم نے بھی پہلے سے زیادہ وقت آن لائن صرف کیا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے مہربان ہونا پہلے سے زیادہ اہم ہے۔

یہ تبدیلیاں ہم سب کی حفاظت کے لیے طویل عرصے سے واجب الادا ہیں۔ ہماری فلاح و بہبود پر اثر انداز ہونے والوں کے لیے نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ہمیں ہاروی کی طرح سب سے زیادہ کمزور نہیں بلکہ ٹرولوں اور غنڈوں سے سب کو بچانے کے لیے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ یہ طرز عمل ہر ایک پر اثر انداز ہوتا ہے: ہمارے بچے، ہماری مائیں، ہمارے بھائی، ہماری بہنیں، ہمارے دوست۔ ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں متحد ہونا چاہیے اور کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو خود ختم ہو جائے گا اور نہ ہی میں اسے چھوڑوں گی۔ مجھے پسند کریں یا نفرت کریں، میں سچائی کے لیے کھڑی ہوں۔ میں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی ٹرولز کے ساتھ گزاری ہے۔ میں یہ اپنے بچوں یا اپنے بچوں کے بچوں کے لیے نہیں چاہتی۔

میں نے تنقید دیکھی ہے کہ اس طرح کا آئینی بل کمزور لوگوں کو آن لائن ’ظاہر‘ کر دے گا، جیسے کہ گھریلو استحصال کے متاثرین، یا نوعمر بچے، ایل جی بی ٹی کیو+ ہونے کی وجہ سے گمنام رہنے کے خواہاں ہوں گے۔ لیکن کسی کو باہر نہیں کیا جا رہا ہے – یا ذاتی معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک قابل ٹریک آئی پی پتہ نجی ڈیٹا مانگنا نہیں ہے – صرف آئی پی رجسٹرار سے ایک پتہ، جو ایک گورننگ باڈی ڈیٹا بیس پر رکھتا ہے۔ اگر کوئی شکایت آتی ہے تو آئی پی کہ ذریعے اس پتے کو ٹریک کیا جا سکتا ہے جس سے پولیس اس شخص کی شناخت کر سکتی ہے۔

میری پٹیشن کا مقصد ٹرولز اور بدخواہ آن لائن مواد کے مرتکب افراد کے علاوہ کسی اور کو بےنقاب کرنا نہیں ہے، جن کا واحد مقصد میرے بیٹے جیسے لوگوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ لوگ ان کہی پریشانی اور ذہنی تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں۔

میڈیا کے بڑوں کی مدد سے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے سے نہ صرف برطانیہ بلکہ باقی دنیا کے بدخواہ مواد کی جانب اپنے نقطہ نظر اور رویے کو تبدیل کر دے گی – کیا ہم نسل پرستی، نفرت اور غنڈہ گردی کو ختم نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہمیں دنیا کو ایک ساتھ رہنے کی مہربان جگہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ بہت ضروری نہیں ہے کہ ہم ایسا کرسکیں؟

اب جب ہم 142500 سے زیادہ دستخط تک پہنچ چکے ہیں تو میں اس وقت تک آہستہ نہیں ہو رہی جب تک یہ دس لاکھ سے آگے نہ چلے جائیں۔ میں اس جگہ کو اچھا بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔

نوٹ: کیٹی ایمی پرائس جنہیں پہلے برطانیہ میں لوگ جارڈن کے نام سے جانتے تھے، ایک ماڈل اور کاروباری خاتون ہیں۔ یہ ان کا دی انڈپینڈنٹ کے لیے لکھا گیا خصوصی کالم ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین