سوات کا ایسا بیوٹی پارلر جہاں مذہب کی تقسیم نہیں

سوات کے ایک بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔

ضلع سوات اپنی مذہبی رواداری اور دسویں صدی عیسوی تک گندھارا تہذیب کا مرکز رہنے کی وجہ سے الگ پہچان رکھتا ہے۔

مسلمانوں کے تسلط میں آنے کے باوجود یہاں پر مختلف مذاہب کے لوگ مذہبی رواداری اور امن و بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے اور کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا نہیں تھا۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہاں پر مختلف مذہبی تحریکوں کی وجہ سے اس فضا کو کافی تغیر کا سامنا کرنا پڑا۔

حال ہی  میں یہاں طالبانائزیشن کی وجہ سے ان اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں سوات کے تمام باسیوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی ماہ تک اپنے گھروں کو چھوڑنا بھی پڑا۔

سوات کے علاقے سیدو شریف میں مہک کے نام سے ایک بیوٹی پارلر ہے جس کو ایک مقامی خاتون شاہ بیگم 17 سالوں سے چلا رہی ہیں-

وہ خود تو ایک مسلمان ہیں لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والی زیادہ تر خواتین مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں-

شاہ بیگم کہتی ہیں کہ اس معاشرے میں عورتوں کو باالعموم اور اقلیت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو باالخصوص امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ایسی عورتوں کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں وہ بغیر کسی امتیاز کے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔

’کئی بار ایسی خواتین گاہک بھی آتی ہیں جن کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم خاتون سے سروسز نہیں لینا چاہتیں۔ میں انہیں بٹھا کر سمجھاتی ہوں کہ کیوں ہم ان سے سروسز نہیں لے سکتے، کیوں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔‘

شاہ بیگم کے مطابق سمجھانے کے بعد پھر وہی خواتین انہیں لڑکیوں سے سروسز لے لیتی ہیں۔

سونیا اس سیلون میں کام کرنے والی ایک مسیحی خاتون ہیں جنہوں نے اس سیلون کے متعلق لوگوں سے سنا تھا کہ یہاں مختلف مذاہب کی لڑکیاں کام کرتی ہیں۔

’میں نے یہاں کام کرنے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ کہ یہاں مجھے ہر طرح کی آزادی ہے اور آج تک مذہب کی وجہ سے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔‘

ان کے بقول کسی بھی انسان کے لیے اس کے مذہب کا احترام اور ذاتی زندگی سب سے مقدم ہوتی ہے۔

’یہاں نہ تو خواتین کے لیے کوئی فیکٹری ہے اور نہ ہی بازاروں میں کام کر سکتی ہیں اسی لیے یہ پارلر ہمارے لیے سب سے اچھی جگہ ہے اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے ایسی جگہ ملی جہاں میری بہت عزت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سونیا کے مطابق وہ اور دوسری غیر مسلم خواتین ورکرز اکثر اپنے تہوار اسی سیلون میں مناتے ہیں، کئی بار تو انہیں ان کے تہواروں کی یاد ان کی ’میم‘ ہی دلاتی ہیں اور آج تک انہیں ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ان کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔

’کرسمس کے موقعے پر ہماری میم کیک لے کر آئی تھیں اور ہم سب نے مل کر اس میں شرکت کی۔ اب ایسٹر ہے تو اس کے لیے بھی ہمیں نہ صرف چھٹیاں دی جاتی ہیں بلکہ تحفے بھی دیے جاتے ہیں۔‘

نوکری میں درپیش چیلنجز سے متعلق سونیا کا کہنا ہے کہ ان کو بھی پارلر آتے جاتے لوگوں کی متعصب بھری نگاہوں کا سامنا رہتا ہے، اس کے علاوہ سیلون میں بھی کبھی کبھار ایسی کلائنٹس سے واسطہ پڑتا ہے جو غیر مذہب ہونے کے بنا پر ان سے کام نہیں کروانا چاہتیں مگر وہ اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور پیار سے انہیں سمجھا کر راضی کر لیتی ہیں۔

سیلون کی مالکن کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ غیر مسلم خواتین کو ہی رکھیں کیونکہ ان کے مطابق ان کے لیے کام ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔

سوات سمیت خیبر پختونخوا کے بیشتر شہروں میں ایک عرصے تک خواتین کے سیلونز نہیں تھے تاہم اب مقامی خواتین بھی سیلونز کے کاروبار کی طرف مائل ہورہی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا