’نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا اتنا نقصان دہ نہیں جتنا ڈرایا جاتا ہے‘

یہ نئی تحقیق مکمل ہونے میں 8 برس لگے۔ اس میں 12 ہزاربرطانوی نوجوانوں سے متعلق اعدادوشمارکا تجزیہ کیا گیا ہے۔

تصویر: اے ایف پی

ایک تازہ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا کے نقصانات کو اپنے اصل سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جب کہ درحقیقت نوجوانوں  پر اس کے اثرات معمولی نوعیت کے ہیں۔

اب معاشرہ ’ ہروقت سکرین پرنظریں جمائے رکھنے‘ کے برے اثرات کا خیال ترک کرکے اپنی توجہ اس بات پرمرکوز کرے کہ کہیں آن لائن رویہ یا مواد نقصان دہ تو نہیں ہے؟ تحقیق کے دوران یہ تجویز آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے دی۔

یونیورسٹی کی یہ تحقیق ’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق میں سامنے آنے والی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ سوشل میڈیا کے معلوم اثرات کے مقابلے میں نامعلوم اثرات خاصے زیادہ ہیں۔

ایک سرکردہ محقق پروفیسراینڈریو پریزیبلسکی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے نوجوانوں پر برے اثرات پربحث میں شواہد مضبوط نہیں ہیں۔ تازہ تحقیق اس حوالے سے اہم ہے اس میں سوشل میڈیا کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کے نوجوانوں پر اثرات کے جائزے پرزور دیا گیا ہے۔

تحقیق میں پہلی بارنوجوانوں کی بہبود اور سوشل میڈیا کے استعمال کے درمیان پیچیدہ تعلق پربحث کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے اثرات پرماضی میں ہونے والی کسی بھی تحقیق میں اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا گیا کہ مایوسی کا شکارنوجوان اپنا زیادہ تروقت سوشل میڈیا پرگزارسکتے ہیں۔

پروفیسراینڈریو پریزیبلسکی کے مطابق ماضی کی تحقیق میں صرف سکرین ٹائم اور اس کے ذہنی صحت پراثرات کا جائزہ لیا گیا لیکن اعدادوشمارکو نظر انداز کردیا گیا اس لئے یہ تحقیق کسی طرح قابل اعتبار نہیں ہے۔

پروفیسراینڈریو پریزیبلسکی کہتے ہیں انفرادی سطح پرنوجوانوں کا کمپیوٹریا موبائل فون پرنظریں جمائے رکھنا کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس پروالدین پریشان ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کوکالے رنگ کا کوئی ایسا ڈبہ سمجھنا جس پرٹک ٹک کرتی گھڑی لگی ہو یا والدین کا سکرین ٹائم کے بارے میں سوچنے کا اندازدونوں غلط ہیں۔

یہ نئی تحقیق مکمل ہونے میں 8 برس لگے۔ اس میں 12 ہزاربرطانوی نوجوانوں سے متعلق اعدادوشمارکا تجزیہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جذبات، احساسات اورمستقبل کے حوالے سے خیالات کے اظہارکے لیے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا استعمال کرکے لوگوں کی تسکین ہوئی۔ تاہم یہ صرف مثبت رجحانات کی بات ہے۔

تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کے اثرات مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ نمایاں ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا نوجوان خواتین کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ تحقیقی ٹیم کی رکن ایمی اوربین کے مطابق تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں سارے سوشل میڈیا کودیکھنے کی بجائے اس کی باریکیوں پر غورشروع کرنا چاہییے۔

2017 میں 14 سالہ برطانوی لڑکی مولی رسل کی خود کشی کے بعد سوشل میڈیا پرکھانے پینے میں بے قاعدگی اوراپنے آپ کونقصان پہنچانے والے مواد کے حوالے سے خوف میں اضافہ ہوگیا تھا۔ایسی صورت حال میں ضروری ہوگیا ہے کہ سائنسدان، پالیسی سازاورصنعتی شعبے کے محقیق باہمی تعاون کو فروغ دیں۔

رائل کالج آف پیڈٰیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے ترجمان ڈاکٹر میکس ڈیوی کے مطابق تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے نوجوانوں پرمحدود اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہماری تجویز ہے کہ سونے سے ایک گھنٹہ قبل سوشل میڈیا کا استعمال بند کردیا جائے کیونکہ بچوں کی اچھی نیند کے لیے ذہنی صحت کے علاوہ بھی وجوہات ہوتی ہیں۔

.

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل