خیبر پختونخوا کابینہ میں کیا مزید استعفوں کی توقع بھی ہے؟

اس غیر متوقع پیش رفت کے بعد صوبے کے سیاسی ماحول میں اچانک تبدیلی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ کابینہ کے تین اراکین نے ایک ساتھ اپنے عہدوں سے استعفٰی دے دیا۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی صوبائی کابینہ میں شامل تین اراکین، مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش، مشیر برائے توانائی حمایت اللہ اور وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن غزن جمال، کی جانب سے اچانک اپنے عہدوں سے استعفی دینے پر سیاسی حلقوں میں حیرت ظاہر کی جا رہی ہے۔

مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بات گورنر شاہ فرمان کی جانب سے ان دیے گئے اچانک استعفوں کو قبول کرنا بھی ہے۔

اس غیر متوقع پیش رفت کے بعد صوبے کے سیاسی ماحول میں اچانک تبدیلی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ کابینہ کے تین اراکین نے ایک ساتھ اپنے عہدوں سے استعفٰی دے دیا۔

ضیا اللہ بنگش نے اپنے استعفٰی میں لکھا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے اس لیے دستبردار ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے حلقے کو وقت نہیں دے پا رہے تھے اور اب ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے حلقے پر توجہ دیں۔

اسی طرح غزن جمال نے اپنے استعفٰی میں لکھا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے 'نا گزیر' وجوہات کی بنا پر دستبردار ہو رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے استعفیٰ میں وجوہات کی تفصیل نہیں بتائی۔ اسی طرح حمایت اللہ سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

دوسری جانب تحریک انصاف حکومت کے قریبی ذرائع ان اراکین کی جانب سے پیش کی جانے والی وجوہات سے ہٹ کر ان اچانک استعفوں کی کچھ اور وجوہات بتاتے ہیں۔

پی ٹی آئی کےقریبی اور ماضی میں صوبائی کابینہ کا حصہ رہنے والے ایک ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی کابینہ کے چھ اراکین کے خلاف ایک رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو ارسال کی گئی تھی جس میں ان اراکین پر ناقص کار کردگی کے ساتھ کرپشن کے بھی الزامات لگائے تھے۔

رپورٹ کے بعد عمران خان نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو ان چھ اراکین کو ہٹانے کی ہدایت کی تھی جس میں تین اراکین آج خود مستعفیٰ ہو گئے اور باقی نے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’اب دیکھا جائے گا کہ رپورٹ میں نام آنے والے باقی تین بھی خود مستعفیٰ ہوتے ہیں اور مستعفیٰ نہ ہونے کی صورت میں اس کو اپنے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے۔‘

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی حکومت کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ صوبے کی وزارت اطلاعات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے اور یوں اس عہدے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کے سابق سینیٹر بیرسٹر علی سیف کو مشیر اطلاعات بنائے جانے کا امکان ہے۔ بیرسٹر سیف ماضی میں سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کے ترجمان بھی رہے چکے ہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے قریبی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ  پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر کے بیٹے اور ایک اور وفاقی حکومت کے عہدیدار کے بھائی کو بھی مشیر کا عہدہ دیے جانے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان کو کون سا عہدہ دیا جائے گا۔

کابینہ کے اراکین میں سے آج مستعفٰی ہونے والے ایک رکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر (کیونکہ پارٹی فیصلوں کے خلاف وہ میڈیا میں بات نہیں کر سکتے) بتایا کہ صرف ایک ہدایت پر ان کو ہٹانے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پارٹی کو تمام وزارتوں کی کارکردگی کو دیکھنا چاہیے کہ کون کتنا کام کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے تو اپنی عزت کی خاطر استعفیٰ دیا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی اور کے لیے جگہ خالی کرنے لیے ہمیں قربانی کا بکرا بنا کر ہم پر خراب کارکردگی کا ٹھپہ لگا دیا جائے اور وہ خبر میڈیا کی زینت بن جائے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے علاوہ دیگر اراکین کو بھی استعفیٰ دینے کا کہا گیا تھا لیکن ان میں سے کچھ وزیر اعلیٰ کے آبائی گاؤں سوات سے تھے، اس لیے ان سے استعفیٰ نہیں لیا گیا۔‘

ان کے بقول: ’پارٹی کے پرانے ورکرز کو نظر انداز کر کے ان سے عہدے لیے جاتے ہیں اور نئے آنے والوں کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے جس سے دل ضرور خفا ہوتا ہے لیکن پھر بھی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے اس لیے ہم نے اسے قبول کیا۔‘

بیرسٹر علی سیف نئے مشیر اطلاعات؟

بیرسٹرعلی سیف متحدہ قومی موومنٹ میں جب تھے تو اس وقت ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے ترجمان بھی تھے۔ بیرسٹر کو ٹی وی ٹاک شوز میں بھی مختلف موضوعات پر بطور مہمان بلایا جاتا ہے۔  بیرسٹر سیف 2015 سے مارچ 2021 تک ایم کیوم ایم کے سینیٹر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’بیرسٹر سیف کو عمران خان کی ہدایت پر مشیر اطلاعات لگایا جارہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرسٹر سیف شاید صوبے کا ایک آچھا امیج اور پی ٹی آئی کے مختلف منصوبوں کی بہتر تشہیر کریں گے جب کہ وہ میڈیا پر صوبائی حکومت کا بھی اچھا دفاع کر لیں گے جو اب تک عمران سمجھے ہیں بہتر طریقے سے نہیں کیا جاتا۔'

ذرائع کے مطابق موجودہ مشیر اطلاعات کامران خان بنگش مشیر برائے ہائیر ایجوکیشن رہیں گے۔ آج کل کامران بنگش کے پاس مشیر اطلاعات اور ہائیر ایجوکیشن دونوں کے قلم دان ہیں۔

بیرسٹر سیف  کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے اور انہوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف بکنگھم سے قانون کی ڈگری 1991 میں حاصل کی تھی جب کہ لندن ہی کی یونیورسٹی آف ایسکس سے 1993 میں انسانی حقوق کے قوانین میں ایل ایل ایم کی ڈگری جبکہ یونیورسٹی آف لندن سے 1995 میں بین الاقوامی قوانین میں ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیرسٹر سیف 1993 سے ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعہ کورٹ کے وکیل اور بعد میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ وہ اب تک مختلف اداروں کے ساتھ بطور لیگل کنسلٹنٹ بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ 1999 سے 2002 تک قومی احتساب بیورو کے ایڈیشنل ڈپٹی پراسیکوٹر بھی رہے ہیں اور اس کے بعد 2005 تک انٹی نارکاٹکس فورس کے لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

اسی کے علاوہ بیرسٹر سیف  نے یونیورسٹی آف ویلز سے قانون، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے انتھراپالوجی اور یونیورسٹی آف ہیل جرمنی سے دہشت گردی کی فیلڈ میں پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں۔

بیرسٹر سیف کو 2007 میں محمد میاں سومرو کے نگران حکومت میں وزیر برائے سیاحت اور نوجوانان بھی بنایا گیا تھا جو 2008 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ بیرسٹر سیف پرویز مشرف کے بنائی گئی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے ہیں اور پرویز مشرف کے ترجمان بھی تھے۔

اس کے بعد 2013 میں اپنے سیاسی جماعت سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی اور 2021 میں ایم کیو ایم چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں آ گئے۔

جب انڈپینڈنٹ اردو نے مشیر اطلاعات کامران بنگش سے پوچھا کہ استعفیٰ دینے کے وجوہات کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ تمام اراکین نے اپنے ذاتی وجوہات کے بنا پر استعفیٰ دیا ہے اور جس طرح انہوں نے استعفیٰ میں لکھا ہے کہ وہ اپنے حلقے کو وقت دینا چاہتے ہیں۔ کامران نے بتایا، 'اراکین نے ذاتی وجوہات کے بنا پر استعفیٰ پر دیا  کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دیگر اراکین کو سپیس دیا جائے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان