پشاور:'وینٹی لیٹر چلانے والوں کے انتظار میں مریض مر رہے ہیں'

لیڈی ریڈنگ ہسپتال صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور اب اسے صرف کرونا کے مریضوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 16 اپریل کے اعدادوشمار کے مطابق ہسپتال کے کرونا کمپلیکس میں اس وقت 375 مریض زیر علاج ہیں جن میں سے 29 مریض آئی سی یو میں داخل ہیں۔

(فوٹو فائل: اے ایف پی)

محمد اسلم خان ( نام تبدیل کردیا گیا ہے) کو گذشتہ ہفتے کرونا سے جڑے نمونیا کی علامات پر ان کے بیٹے نے  پشاور کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں داخل کروایا۔

انہیں نان ری بریتھر ماسک (یہ آکسیجن ماسک ایسے مریض کو ابتدائی حالات میں لگایا جاتا ہے جو سیریس نہ ہوں اور یہ ماسک 60 سے 80 فیصد آکسیجن 10 سے 15منٹ فی لٹر کے حساب سے  سپلائی کرتا ہے) لگایا گیا۔

اسلم کو لیڈی ریڈنگ کی نیو بلڈنگ میں رات کی شفٹ میں داخل کرایا گیا تھا جسے چند دن پہلے کھولا گیا ہے۔ مریض کچھ لمحے نارمل رہے مگر جلد ہی ان کا آکسیجن سیچوریشن لیول نیچے آنا شروع ہوگیا۔

مریض کا سیچوریچن لیول 50 تک گر گیا جب کہ نارمل کم از کم 90 ہوتا ہے، وارڈ میں موجود طبی عملے نے مریض کو نان انویزیو وینٹیلیشن(این آئی وی) پر ڈالنے کے لیے متعلقہ یونٹ کو لکھ دیا۔

نان انویزیو وینٹیلیشن آکسیجن دینے کا وہ طریقہ کار ہے جس میں ماسک یا کنٹوپ کے ذریعے آکسیجن سپلائی کی جاتی ہے اور وینٹی لیٹر پر ڈالنے سے پہلے نسبتاً کم سیریس مریض کو دیا جاتا ہے۔ جب کہ وینٹی لیٹر میں آکسیجن  سپلائی کرنے کے لیے ایک ٹیوب مریض کے ونڈ پائپ میں ڈال دی جاتی ہے۔

وینٹی لیٹر یا این آئی وی کو چلانے کے لیے ماہر ٹیکنیشن ’ریسپائریٹری تھیراپسٹ‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذکورہ مریض کو این آئی وی لگانے کے لیے طبی عملے نے ہسپتال انتظامیہ سے وینٹی لیٹر ماہر کو بلانے کی درخواست کی تاہم رات کے وقت اس بلڈنگ میں وینٹی لیٹر چلانے والا عملہ موجود نہیں ہوتا۔

مریض کی حالت جب مزید خراب ہوگئی تو طبی عملے نے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے عملے کو بتا دیا کہ مریض کو فوراً شفٹ کرنا چاہیے تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

رات کے تین بجے

رات کے تین بج رہے ہیں۔ طبی عملہ کرونا وارڈ میں موجود ہے۔ مریض کے پاس جا کر عملہ انہیں چیک کرتا ہے لیکن اب ان کا سیچوریشن لیول مزید گرنا شروع ہوجاتا ہے اور45 تک آجاتا ہے۔

طبی عملہ حتمی طور پر کہہ دیتا ہے کہ مریض  کو انتہائی نگہداشت  یونٹ (آئی سی یو ) اور وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے تاہم  نہ اس عمارت میں  وینٹی لیٹر چلانے والا موجود تھا اور نہ آئی سی یو کی جانب سے وارڈ کے طبی  عملے کو کوئی جواب ملا۔

کئی گھنٹوں تک مریض کو آئی سی یو میں شفٹ کرنے اور وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی ضرورت رہی لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، بہت دیر بعد جب آئی سی یو میں بیڈ خالی ہونے کے پہ مریض کو وہاں شفٹ کیا گیا تو 15 منٹ بعد ہی مریض کی موت واقع ہو گئی۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے کرونا کمپلیکس میں اسلم خان کی طرح روزانہ کی بنیاد پر کرونا کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ہسپتال کے طبی عملے کے بعض اہلکاروں نے اس کی بنیادی وجہ ہسپتال میں وینٹی لیٹر چلانے والوں کی کمی بتائی ہے۔ لواحقین کے مطابق ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے نئی بلڈنگ میں کرونا مریضوں کو رکھا گیا ہے تاہم وہاں پر انتہائی نگہداشت وارڈز بھی موجود نہیں ہیں۔

مذکورہ کمپلیکس کے تین ڈاکٹروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات کی ہے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ یہ تو ایک کیس ہے، ہسپتال میں اب یہ روٹین بن چکی ہے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ مریضوں کی  کونسلنگ کریں تاکہ ان کی  جانب سے کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بھی  بہت برا محسوس ہوتا ہے جب مریض کو این آئی وی پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کا سیچوریشن لیول اتنا گرتا ہے کہ وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہم لواحقین کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں حالانکہ اس کی ذمہ دار ہسپتال انتظامیہ ہوتی ہے ۔‘

دوسرے ڈاکٹر کے مطابق ’ہمیں مسئلہ اس وقت  پیش آتا ہے  جب مریض کے تیماردار کو پتہ چلتا ہے کہ مریض کو کسی چیز کی ضرورت ہے تاہم وہ ہسپتال کے وارڈ میں موجود  نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں پھر سارا غصہ  تیماردار کی جانب سے ڈاکٹر پر نکالا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ہسپتال  میں سہولیات دینے کا ذمہ دار نہیں ہوتا  بلکہ وہ صرف علاج کرتا ہے، یہ ذمہ داری ہسپتال انتظامیہ کی ہوتی ہے۔‘

لیڈی ریڈنگ ہسپتال صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور اب اسے صرف کرونا کے مریضوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 16 اپریل کے اعدادوشمار کے مطابق ہسپتال کے کرونا کمپلیکس میں اس وقت  375 مریض زیر علاج ہیں جن میں سے 29  مریض آئی سی یو میں داخل ہیں۔

اسی ہسپتال میں کرونا مریضوں کے لیے مختص بستروں کی تعداد 441 ہے جب کہ مختص وینٹی لیٹرز کی تعداد 55 ہے ۔

کرونا کمپلیکس میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر سے جب پوچھا گیا کہ ہسپتال میں تو وینٹی لیٹرز اب بھی موجود ہیں اور سارے زیر استعمال نہیں ہیں، تو مریض کو کیوں نہیں لگائے جاتے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وینٹی لیٹرز تو موجود ہیں لیکن انہیں چلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

’وینٹی لیٹرز چلانے والے یا دن کی شفٹ میں کام کرتے ہیں  اور یا پرانے وارڈز میں  ڈیوٹی  سر انجام دیتے ہیں۔ کرونا مریضوں کے لیے مختص عمارت میں رات کی شفٹ میں کوئی بھی وینٹی لیٹر چلانے والا نہیں ہوتا۔‘

مجموعی طور اپریل 15 کے  محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں   کرونا مریضوں کے لیے مختص ہائی ڈیپینڈینسی یونٹ ( وہ بیڈ جس کے ساتھ آکسیجن سپلائی لگی ہوتی ہے) کی تعداد  1078 ہے جس میں 934 زیر استعمال ہیں۔ صوبے بھر کے ہسپتالوں میں مجموعی طور 332 وینٹی لیٹرز کرونا مریضوں کے لیے مختص ہیں جن میں سے 61 زیر استعمال ہیں۔

صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے کرونا کے لیے مختص بیڈز کے بارے میں بتایا کہ 15 اپریل کو صوبے میں کرونا کی تیسری لہر کے دوران بیڈز کے استعمال میں 450 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ کرونا شروع ہونے سے اب تک سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

ہسپتال کا کیا موقف ہے ؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ اس وقت ہمارے ساتھ ہسپتال میں آٹھ ریسپائریٹری تھیراپسٹ (وینٹی چلانے والے) کام کر رہے ہیں جو مختلف شفٹس چلاتے ہیں تاہم ہسپتال نے ضرورت کے مطابق 21 مزید وینٹی لیٹرز چلانے والوں کی بھرتی کا عمل مکمل کیا ہے اور وہ جلد ہسپتال میں کام شروع کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد عاصم نے بتایا ’اس مسئلے کو میں سینیئر انتظامیہ کے نوٹس میں لاؤں گا۔  ہمارے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم لیڈی ریڈنگ میں صرف سیریس مریضوں کو لیتے ہیں اور ہر ایک مریض کو سنجیدہ کیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نارمل حالات نہیں ہیں بلکہ ایمرجنسی حالات ہیں اور ہسپتال میں کرونا مریضوں کا رش روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔‘

عاصم سے جب پوچھا گیا کہ اگر حالات اتنے خراب ہے تو کیا حکومت کی جانب سے سپورٹ نہیں مل رہی؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مکمل سپورٹ ہمیں حاصل ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی صورت حال میں اگر کسی چیز کی ضرورت پڑی تو ہم دیں گے۔

عاصم نے بتایا کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے ہسپتال میں کرونا مریضوں کا داخلہ زیادہ ہو رہا ہے ویسے ویسے ان کو سنبھالنے کے لیے دیگر سٹاف کی بھی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان