بلوچستان ایران سرحد: مند تجارتی دروازہ کھلنے سے اصل فائدہ کس کو؟

بلوچستان سے متصل ایرانی سرحدی علاقے مند کا تجارتی راستہ کھول دیا گیا ہے، جسے دونوں ممالک کے مابین تجارت میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

افتتاح کے موقع پر  پاکستانی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال اور ایران کی طرف سے وزیر مواصلات و اربن ڈویلپمنٹ محمد اسلامی نے شرکت کی (تصویر: بشکریہ بلوچستان حکومت)

بلوچستان سے متصل ایرانی سرحدی علاقے مند کا تجارتی راستہ کھول دیا گیا ہے، جسے دونوں ممالک کے مابین تجارت میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

سرحد کھولنے کی افتتاحی تقریب بدھ (21 اپریل) کو ایرانی علاقے میں ہوئی جس میں پاکستانی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال اور ایران کی طرف سے وزیر مواصلات و اربن ڈویلپمنٹ محمد اسلامی نے شرکت کی۔ 

پاکستان کی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال نے ایرانی خبررساں ادارے ارنا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں مند سرحد کو دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کے لیے بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد میں سے ایک اسلامی جمہوریہ ایران سے تعلقات کا فروغ ہے اور باضابطہ سرحد کے افتتاح کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔‘

ادھر تہران ایران کے دورے پر آئے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف نے بدھ کو سرحدی تعاون کے فروغ کے مقصد سے مشترکہ سرحدی بازاروں کے قیام پرایک تعاون کی یادداشت پر دستخط کیے۔

اس مفاہتمی یادداشت کے مطابق پہلے مرحلے میں کوہک-چدگی، ریمدان-گبد اور پیشین-مند سرحدی علاقوں میں تین سرحدی بازاروں کا افتتاح ہوگا جس کے بعد تین دیگر سرحدی علاقوں میں تین اور بازاروں کا قیام ہوگا۔

اس سے قبل گوادر سے متصل ایرانی سرحد پر رمدان گبد کا تجارتی راستہ بھی کھولا جاچکا ہے۔ 

پاکستان اور ایران کے مابین تجارت کو فروغ دینے کے لیے بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند سے متصل یہ تجارتی دروازہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 

کوئٹہ کے رہائشی عبدالعلیم کا خاندان 90 کی دہائی سے بلوچستان ایران سے متصل سرحدی علاقے مند میں جنرل سٹور کی دکان چلا رہا ہے۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’وہ بڑے اچھے دن تھے اور ہمارا کاروبار بھی دن بدن ترقی کررہا تھا۔ جنرل سٹور کےعلاوہ ہم ایران سے خوراک کا سامان بھی لاکر فروخت کرتے تھے۔ اس وقت مند ایک بڑا کاروباری مرکز تھا جہاں چار سے پانچ بڑی مارکیٹیں تھیں جن میں کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کے سینکڑوں لوگ کاروبار کی غرض سے آتے تھے۔ ‘

علیم کے مطابق: ’سب خوشحال تھے اور دکانوں میں ایرانی کرنسی تمن میں خریدو فروخت ہوتی تھی۔ سرحد کے دونوں اطراف ہر وقت چہل  پہل رہتی تھی۔ ہمیں کبھی نہیں لگا کہ کبھی ایسے حالات ہوجائیں گے کہ ہمیں سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑے گا۔‘ 

واضح رہے کہ بلوچستان میں 2003 کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور مکران کے خطے میں 2010 کے بعد شورش نے زور پکڑا۔ 

علیم نے بتایا کہ ’جب 2006 میں نواب اکبر بگٹی کا واقعہ ہوا، تب بھی ضلع کیچ اور مند میں کاروبار جاری و ساری رہا۔ تب بھی ہم نے خیال کیا کہ ضلع کیچ اورخصوصاً مند میں باقی بلوچستان کے حالات کا اثر نہیں پڑے گا، لیکن 2010 میں ہمیں بعض پشتون تاجروں کے قتل کے واقعات نے خوفزدہ کردیا۔ جب مند میں ایک تاجر کو قتل کیا گیا تب لوگوں نے کاروبار سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ علاقہ تاجروں سے خالی ہوتا گیا۔‘

علیم اور ان جیسے دیگر کاروباری لوگوں کو لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا اور ان کی تمام جمع پونجی ختم ہوگئی۔ یہ اتنا بڑا نقصان تھا کہ علیم اب تک اپنے کاروبار کا وہ سلسلہ شروع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ 

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مند کا سرحدی علاقہ جہاں کبھی انسانوں کا ہجوم رہتا تھا اور کاروبار کا دور دورہ تھا، اب وہاں انسانوں کی بجائے جانور گھومتے دیکھے جاسکتے ہیں، تاہم اب اس راستے کے افتتاح کے بعد نئی امیدیں جاگی ہیں۔

’مثبت اقدام‘

ایوان تجارت گوادر کے سابق نائب صدر شمس الحق ایرانی سرحد پر تجارتی دروازوں کے کھلنے کو مثبت اقدام سمجھتے ہیں تاہم وہ تعداد میں اضافے اور سرحد پر تجارتی مارکیٹس بنانے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مند پشین تجارتی راستے کے کھلنے سے زیادہ ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو پاسپورٹ کے ذریعے ایران جانا چاہتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ رمدان اور مند تجارتی راستے کے کھلنے سے قبل بلوچستان اور باہر سے آنےوالے تمام افراد کو تفتان سرحد جانا پڑتا تھا، جو ہر ایک کے لیے مشکل کا باعث تھا۔ 

شمس الحق کے بقول: ’اب مند سے بھی لوگ زمینی راستے کے ذریعے ایران جاسکتے ہیں اور یہاں سے ٹرانزٹ کے ذریعے بھی کاروبار ہوگا۔‘

بلوچستان کے باسی صدیوں سے ایرانی سرحد سے غیر روایتی تجارت (سمگلنگ) سے وابستہ ہیں، جس سے نہ صرف ان کا گزر بسر چلتا ہے بلکہ یہاں کی معیشت کا دارو مدار بھی اسی پر ہے۔ 

پاکستان نے ایرانی سرحد کو باڑ لگا کر بند کرنا شروع کردیا ہے، جس پر تقریباً 80 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے، جس سے یہاں کے مکینوں کا غیر روایتی تجارت اور اشیا خورد نوش لانے کا سلسلہ رک گیا ہے۔ 

 مند کا سرحدی دروازہ کس کے لیے فائدہ مند؟

 شمس الحق کا ماننا ہے کہ سرحد صرف ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں، جیسے ایل پی جی اور دیگر چیزیں ایران سے لائی جاتی ہیں۔ ’اب جو بندہ پنجگور یا ایرانی علاقے سراوان میں بیٹھا ہے وہ ایک پک اپ گاڑی میں چار ڈرم تیل لاتا ہے۔ اس کو اس سرحد سے فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ وہ کروڑوں کا کاروبار نہیں کرسکتا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس سے عام شہریوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح کچھ عرصہ قبل ایرانی سرحد کھلی تھی اور یہاں سے تجارت پر آج کی نسبت اتنی سختی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ اپنے روزمرہ کا سامان آٹا، گھی اور خوراک کا سامان لاتے اور دیگر ضروریات کے لیے ایرانی تیل لاکر فروخت کرتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ ایرانی سرحد سے بلوچستان کے اکثر لوگ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سمگل کرنے کا کام کرتے ہیں، جس سے سرحدی علاقوں کے سینکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ 

سرحد پر باڑ لگانےاور حکام کی جانب سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لانے پر سختی کے باعث سرحد پر پھنسے سمگلنگ کرنے والے بعض لوگوں کی ہلاکتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ 

گوادر کے ایوان تجارت کے رہنما نے مزید بتایا کہ ’سرحد کو باڑ لگا کر محفوظ کردیا گیا ہے، لیکن اس سے لوگوں کے روزگار پر اثر پڑا ہے، جو یہاں کے لوگ صدیوں سے کرتے آرہے ہیں اور ان کی ایران میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایرانی پیٹرول پہلے 55 روپے لیٹر مل رہا تھا، اب وہ سو روپے سے تجاوز کرگیا ہے، جو لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ 

شمس الحق کہتے ہیں کہ یہاں متبادل روزگار کا بندوبست نہیں کیا گیا جس سے بلوچستان میں احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 

تجاویز  

ایوان تجارت گوادر کے رہنما تجویز کرتے ہیں کہ اگر سرحدی دروازوں کی تعداد، جو اب تک چار ہے، ان کو آٹھ سے 15 کیا جائے تو وہاں تجارت کے فروغ کے ساتھ عام لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ سرحدی دروازوں کے ساتھ ایران اور پاکستان دونوں اطراف میں دس سے 20 ایکڑ پر محیط مارکیٹ بنائی جائے، جس سے وہاں لائی جانے والے سامان سے سستے داموں اشیا مل سکیں گی اور عام لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ 

شمس الحق کا کہنا تھا کہ حکام نے ایرانی سرحد کو باڑ لگا کر بند تو کردیا ہے لیکن انہوں نے اس کے متبادل کا نہیں سوچا، جس سے نہ صرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے بلکہ لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ 

تجارت پر ایران پر عائد پابندیوں کا اثر 

ایوان تجارت گوادر کے رہنما شمس الحق کہتے ہیں کہ چونکہ بلوچستان سے متصل ایرانی سرحدی دروازوں سے مقامی سطح کی تجارت کی جاتی ہے، جس پر ایران پر عائد پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے قبل تفتان کے راستے تجارت ہو رہی ہے، یہاں سے بھی اسی طرز پر کام ہوگا اور مند کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ ہوگی۔ 

واضح رہے کہ مند کے راستے اس سے قبل ترکی، وسط ایشا سے آنے والا سامان نہیں آسکتا تھا، جو اب اس راستے سے ٹرانزٹ ہوسکے گا۔ رمدان سرحد سے بھی اس وقت زائرین اور دیگر لوگ قانونی طریقے سے آجارہے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان