سوشل میڈیا پر کھل کر بولنے کی طلب اور پابندیوں میں یکساں اضافہ

بہرحال یہ بات ابھی متنازع ہے کہ ملک میں آزادی اظہار رائے کا دعوی کس حد تک درست ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کوگرفتار کیا گیا یا ان کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہوئے۔

جوں جوں سوشل میڈیا کی وجہ سے کھل کر بولنے کی طلب زیادہ ہو رہی ہے ویسے ہی حکومت کی جانب سے سختی بھی بڑھ رہی ہے۔

مختلف ادوار میں اداروں اور محکموں خاص طور پر عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان بازی پر سخت سزاؤں کے قوانین بنائے گئے لیکن جن کے خلاف یہ مقدمے بنائے گیا یا وہ گرفتار کیے گئے انہوں نے اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیا۔

اس بابت اقتدار میں آنے والوں کی سوچ کی بظاہر عکاسی سابق ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بشیر میمن کے بیانات سے ہوتی ہے جب انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم مخالفین کے خلاف چھوٹی چھوٹی باتوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا حکم دیتے ہیں۔ تاہم وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

جب مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی کو عدلیہ کے خلاف تقریر کی ویڈیو وائرل ہونے اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور گرفتاریاں ہوئیں تو اس وقت سے یہ معاملہ زیادہ زیر بحث آنے لگا۔

ایسا ہی مقدمہ حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر اعظم کشمیر سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کے خلاف بھی درج ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیزصدیقی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی عدالتی امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق تقریر پر اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا۔

اب مسلم لیگ ن کے رہنما ایم این اے جاوید لطیف کو بھی اشتعال انگیز اور انتشار پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیاگیا۔ پی ٹی ایم رہنما منظور پشتین، ایم این اے علی وزیر اور محسن داوڑ بھی ایسے ہی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سابق لیکچرار ایف سی کالج عمار علی جان کے خلاف ایسا ہی ایک مقدمہ درج ہوا اور گرفتاری کی کوشش کی گئی۔

ریاستی اداروں پر تنقید

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مخالفین ہوں یا سماج کے دیگر گروہ خاص طور پر صحافی اگر کسی پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں خاموش کرانے کے لیے اگر مقدمات درج کیے جاتے ہیں یا انہیں گرفتار کیا جاتا ہے یا سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ انہیں سزا کے خوف سے خاموش کرایا جائے تو یہ حکومت کرنے کا سامراجی سٹائل ہے۔ ’اس سے معاشرہ غیرصحت مند ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر کسی میں تنقید سننے کا حوصلہ نہ ہو یا کسی کو ناجائز لگتی ہو تو وہ حکمرانی کے قابل نہیں ہے۔ جمہوریت میں ایسا طریقہ کار اختیار کرنا قابل مذمت ہے ایسے معاملات پر مقدمات درج نہیں ہونے چاہییں۔

’ہمارے ہاں بعض قوانین جو استعمال ہوتے ہیں جیسے بغاوت یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہے یہ تمام برطانوی استعماریت کی یادگار ہیں۔ یہ اب زیب نہیں دیتا کہ جدید جمہوری ملک کا دعوی کریں اور اسے ناقدین کے خلاف استعمال کریں۔

’اظہار رائے کی آزادی فنون لطیفہ سے صحافت تک جس ماحول کی ضرورت ہے وہ اس وقت پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ ہمیں اس کے قیام کی کوشش ضروری ہے حکومت ایسے رویوں پر محتاط رہے اور مخالفین کو تنقید کا حق دیں کیونکہ جو آج حکومت میں ہیں کل وہی اپوزیشن میں ہوں گے۔‘

سوشل میڈیا کے بیشتر صارفین میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی حکومت، ادارے یا محکموں پر تنقید کرتا ہے تو اسے چپ کرانے کی ہر حد تک جایا جاتا ہے۔ پمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم پر چند دن پہلے قاتلانہ حملہ بھی اس کی تازہ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

اشتعال انگیزی یا بغاوت

ماہر قانون فیصل باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسی قانون سازی ہر دور میں ہوتی رہی ہے جن میں بغاوت، انتشار، نفرت، غداری یا اداروں کی توہین پر سنگین سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

فیصل باجوہ کے مطابق ایسے جرائم پر کارروائی کے لیے قانون تو بنائےگئے ہیں مگر ایسے قوانین کا استعمال بھی ہر دور میں اختلاف رائے رکھنے والے یا تنقید کرنے والوں کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1997 میں بننے والے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں بھی ایسے بیانات جو نفرت پھیلانے فرقہ واریت اور بغاوت کو ہوا دینے کا موجب بنیں سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ سزائیں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات میں شامل کی گئیں۔

فیصل باجوہ نے بتایا کہ آئین توڑنے اور غداری کے خلاف آئین میں آرٹیکل 6 اور پنجاب پینل کورٹ کی دفعہ 132 سے 140 تک اس قسم کے الزامات پر ہی لگائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے تحت نفرت انگیز تقاریر پر پابندی عائد کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے حکومت نے بھی کابینہ سےایک بل پاس کرایا جس میں پاکستانی فوج پر تنقید اور بیان بازی پر سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

آئین و قانون میں ان جرائم سے متعلق جو سزائیں تجویز ہوئی ہیں ان کا اطلاق عدالتوں میں الزام ثابت ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔

لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور اداروں پر تنقید کرنے کے الزام میں درج مقدمات اور گرفتار ہونے والوں پر جرم زیادہ تر ثابت نہیں ہوتے بلکہ کئی بار تو بیانات بھی اس طرح ریکارڈ نہیں ہوتے جس طرح درج مقدمات میں الزمات لگائے گئے ہوتے ہیں۔

بہر حال یہ بات ابھی متنازع ہے کہ ملک میں آزادی اظہار رائے کا دعویٰ کس حد تک درست ہے اور صرف برسر اقتدار شخصیات یا مقتدرحلقوں کے خلاف تنقید پر ایسے رہنماؤں کے خلاف ہی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے جبکہ حامی جماعت یا تنظیم سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل