امریکی ویٹو: جارح اسرائیل کا مضبوط ہتھیار

اقوام متحدہ کے فیصلوں کی طوالت یا سلامتی کونسل کے ارکان کے حق استرداد [ٹیکنیکل بلاک] کی بالادستی ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم نو ضروری ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے 11 فروری 2020 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے اس وقت کہاتھا  کہ دنیا کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کو مسترد کر دینا چاہیے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل دو ایسے ادارے ہیں جن کے بارے میں عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں جنگ کا راستہ روکنے، امن قائم کرنے اور دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایسے حالات فراہم کرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں جن کی بدولت تمام انسان انصاف حاصل کر سکیں اور پرمسرت زندگی بسر کر سکیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہر آزاد ملک حصہ بن سکتا ہے جبکہ سلامتی کونسل میں دنیا کے پانچ بڑ ے ممالک (امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین) موجود ہیں۔

امن عالم کے قیام کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے لیکن کونسل کے پانچ ممالک میں سے کوئی ایک بھی کسی فیصلے یا قرارداد کو مسترد کر دے تو ساری محنت، بحث مباحثہ اور لابنگ ضائع ہو جاتی ہے۔ ماضی میں اسے ’ویٹو‘ کا حق کہتے تھے اور اب اس کے لیے ’ٹیکنیکل بلاک‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اگرچہ جنرل اسمبلی کے طویل طریقہ کار اور سلامتی کونسل کے قیام امن کی کوششوں کے پیچیدہ ہونے کے معاملے میں اقوام متحدہ کے اہل کار بھی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی طوالت یا سلامتی کونسل کے ارکان کے حق استرداد [ٹیکنیکل بلاک] کی بالادستی ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم نو کر دی جائے یا پھر یہ کہ دو تین اقوام متحدہ ایسے پلیٹ فارم بنا دیئے جائیں۔ اقوام متحدہ کا ایک زیریں ادارہ اس پر کام کر رہا ہے کہ اس کے مختلف اداروں میں ایک کام کے مختلف جگہوں پر سرانجام پانے کے عمل یعنی ڈوپلیکیشن کو کس طرح روکا جائے۔

دوسرا اہم مسئلہ اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کا پھیلتا ہوا حجم اور اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات ہیں۔ اگر ایک افریقی ملک کے قحط زدہ علاقوں کے لیے اقوام عالم مثلاً دس کروڑ ڈالرز مختص کرتی ہیں تو اس کا 70 فیصد دفاتر کے قیام اور متعلق عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جتنی رقم مقامی لوگوں پر خرچ ہونا ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ مقامی کارندوں کی بدعنوانی کی نظر ہو جاتا ہے اور اس کے بعد مثلاً قحط زدہ لوگوں تک کیا پہنچتا ہو گا اور اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد آج تک امریکہ، اسرائیل کی بےحد وحساب امداد واعانت کرتا چلا آ رہا ہے اور اگر یہ معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل تک پہنچتا ہے تو واشنگٹن کا نمائندہ کھلم کھلا اسرائیل کے موقف کی، چاہے کوئی مسئلہ ہو، توثیق و تصدیق کرتا ہے۔ اگر مسئلہ سلامتی کونسل پہنچ جائے اور کونسل بادل نخواستہ اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور بھی کر لے تو امریکہ ’ویٹو کا نیوٹران بم‘ لے کر آ موجود ہوتا ہے اور اقوام عالم ایک صف میں کھڑی نظر آتی ہیں جبکہ اسرائیل اور اس کا سب سے بڑا عالمی سرپرست امریکہ دوسری صف میں، مگر سب پر بھاری نظر آتے ہیں۔

اسرائیل کو جتنے علاقے کا ’اعلان بالفور‘ کے ذریعے اختیار ملا تھا دیگر ممالک پر جنگیں مسلط کر کے وہ اس سے آٹھ گنا رقبے پر قبضہ کر چکا ہے۔

اردن سے مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی، شام سے گولان کی پہاڑیاں، مصر سے صحرائے سینا اور دیگر علاقے اپنی جنگی طاقت کی بنا پر چھین چکا ہے اس کے باوجود امریکہ، اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت کا سرٹیفکیٹ آئے روز جاری کرتا رہتا ہے۔

یہی نہیں امریکہ، اسرائیل کو تین ارب ڈالر کی سالانہ امداد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ مزید اسلحہ خرید کر 35 لاکھ فلسطینیوں کا بسہولت قتل عام کر سکے۔ اقوام عالم امن، انصاف، سلامتی، رواداری اور اکرام انسانیت کے علم بردار امریکہ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ آخر امریکہ نے اسرائیل کے اندر وہ کون سی خوبی دیکھ لی ہے جس کی بدولت امریکہ نہ صرف ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی ناراضی مول لینے، بلکہ ہر اس فرد، ادارے یا اجتماعیت کو حرف غلط کی طرح مٹانے کے لیے تیار ہے کہ جو امریکہ سے یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کا اندھا دھند استعمال نہ کرے۔

اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اپنے ہی اعداد وشمار کے مطابق اقوام متحدہ کے قیام سے لےکر 70 ایسی قراردادیں ہیں جنہیں امریکہ ویٹو (مسترد) کر چکا ہے۔

ان میں سب سے اہم قرارداد وہ ہے جس میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ 1967 کی جنگ میں اس نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا انہیں خالی کر دے لیکن اسرائیل نے اسے بھی اہمیت نہیں دی۔

یہی نہیں اگر امریکی پالیسی ساز حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اسرائیل مخالف قرارداد کی صرف اصولی مخالفت کا فیصلہ بھی کر لیں تو امریکی صدر میدان میں اتر آتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف قرارداد پاس نہیں ہونے دیتے۔

غزہ کی پٹی میں 12 روزہ حالیہ جنگ کے دوران تقریباً 300 فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ شہری آبادیوں اور شہری نظام کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اربوں ڈالرز ہے۔ جنرل اسمبلی میں قرارداد آئی (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی تیاری میں امریکی حکام کا ہاتھ رہا ہے)۔

جب قرارداد پر رائے شماری کا وقت آیا تو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے امریکہ کا نمائندہ غائب تھا۔ انہوں نے قرارداد کی رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔ اس طرح امریکہ نے اسرائیل کی لفظی مذمت کے ’’گناہ‘‘ سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ امریکی حکومت اور امریکی پالیسی سازوں نے یہی طریقہ کار اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں میں اپنا رکھا ہے۔

اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں متنازعہ نسلی دیوار کی تعمیر کی۔ یہ دیوار، دیوار برلن سے اونچی اور اس سے کئی گنا طویل تھی۔ اس دیوار کی تعمیر کے بعد فلسطینیوں کے گھر باغات، سکول، کھیت اور مارکیٹیں بالکل تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ ایک طرف گھر ہے تو دیوار کے دوسری طرف کھیت یا مارکیٹ اور اس فلسطینیوں کو اپنے کام کی جگہ یا کالج یا سکول پہنچنے کے لیے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلسطینی اتھارٹی کی حکومت یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں لے گئی۔ عالمی عدالت انصاف کے پندرہ ججوں میں سے چودہ ججوں نے اس دیوار کو نسلی تفریق پر مبنی، بلا جواز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ اس دیوار کی تعمیر فی الفور بند کر دے اور متاثرہ لوگوں کونقصان کا ہرجانہ ادا کرے، لیکن چودہ ججوں کے مقابلے میں ایک امریکی جج نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ متنازعہ دیوار بلا روک ٹوک مکمل کر لی گئی۔

گویا عالمی عدالت انصاف میں بھی امریکہ نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کا حق استعمال کر لیا۔ امن سے محبت کرنے والا ہر شخص یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ سوا کروڑ فلسطینی جس بات کو غلط قرار دے رہے ہیں ڈیڑھ ارب مسلمان غلط قرار دے رہے ہیں اور دنیا بھر کے چودہ اہم ترین جج غلط قرار دے رہے ہیں، واحد امریکی جج اسے درست کیوں قرار دے سکتا ہے۔ آیئے واپس اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو کے اندھے استعمال کی طرف چلتے ہیں۔

1972 میں اسرائیل نے شام اور لبنان پر فضائی حملوں کے ذریعے سینکڑوں افراد کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ سلامتی کونسل میں قرارداد پیش ہوئی اور امریکہ نے اپنی قوت کا اظہار کرتے ہوئے قرارداد کو مسترد [ویٹو] کر دیا۔ ایک برس بعد 1973 میں قرارداد آئی کہ اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہے ان کو خالی کر دے، ممکن تھا کہ اسرائیل بارے میں غور کرتا۔ امریکی استرداد [ویٹو] نے اسرائیل کو مضبوط تر کر دیا۔

 1976 میں قرارداد آئی کہ سرائیل مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر بند کر دے لیکن فلسطینیوں کے لیے تباہ کن امریکی ویٹو آڑے آ گیا اور اسرائیل کی ناجائز کاری کو ایک طرح کا سہارا مل گیا۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک شروع کر رکھا ہے اس کی مذمت کی قرارداد 1978 میں آئی اور مسترد کر دی گئی وجہ سپر پاور امریکہ کا کردار تھا۔ 1979 میں قرارداد آئی کہ اسرائیل ان تمام کو واپس لے جنہیں جلا وطن کر دیا گیا ہے امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ اسی برس قرارداد آئی کہ اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے، امریکہ نے پھر حق استرداد استعمال کیا۔

امریکہ آج بھی اسرائیل کو تحفظ دینے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر کاربند ہے اور تقسیم شدہ عرب دنیا اور امت مسلمہ نے خطے کے جارح ملک کو مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ بنا رکھا ہے۔

عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی مشترکہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں نے ہی فلسطین کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا۔۔۔ جس ملک [اسرائیل] کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سیاسی کمزوری کا شکار ہوا ۔۔۔کیا عجب ہے کہ پورا خطہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر