آپ کا لاہور کیسا ہے؟

بیجنگ میں بلند و بالا عمارتیں، بڑے بڑے شاپنگ مال اور بہترین سہولیات ہیں، بس یہاں لاہور اور لاہور کی رونقیں نہیں ہیں۔

لاہور میں منار پاکستان کے قریب ایک بچہ 12 فروری 2010 کی اس  تصویر میں جھولے جھول رہا ہے (اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے ہمارے دو ساتھیوں شیراز حسن اور اجمل جامی نے مل کر ٹوئٹر پر ’لاہور کی باتیں‘ کے نام سے ایک سپیس سیشن کیا جس میں کئی افراد نے شرکت کی۔

اس سیشن میں بھارت سے کچھ ایسے ساتھی بھی شامل ہوئے جو کئی بار لاہور آ چکے تھے۔ سیشن سنتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا لاہور ان سب کے لاہور سے مختلف تھا۔

ہمارا بچپن لاہور کے علاقے دھرم پورہ کے ایک محلے میں گزرا۔ پاکستان بننے کے بعد دھرم پورہ کا نام تبدیل کر کے مصطفیٰ آباد کر دیا گیا تھا لیکن اب بھی زیادہ تر لوگ اسے دھرم پورہ کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہاں ہندو اور سکھ رہا کرتے تھے۔ اب شائد ہی ڈھونڈنے سے کوئی غیر مسلم ملے۔ سپیس سیشن کے دوران شیراز نے بتایا کہ بھارت کی سابقہ وزیرِ خارجہ سشما سوراج کا آبائی گھر بھی دھرم پورہ میں ہی واقع ہے۔

ہمارا گھر بازار کے بیچ و بیچ تھا۔ صبح ہوتے ہی بازار کا شور کھڑکیوں کے ذریعے گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔ یہ اس علاقے میں رہنے کا نقصان تھا۔ فائدہ یہ کہ جب چاہو بازار چلے جاؤ اور جو چاہو خرید لاؤ۔ شام ڈھلے دکاندار اور گاہک رخصت ہونا شروع ہوتے تو شور بھی کم ہونا شروع ہو جاتا تھا۔

اگرچہ ایسے بازاروں میں زیادہ تر عورتیں ہی نظر آتی ہیں لیکن ان کا بازار کا تجربہ بازار میں مختلف تھڑوں پر بیٹھے مردوں سے الگ ہوتا ہے۔ ان کا کام بس من پسند خریداری کر کے بازار سے جلد از جلد نکلنے کا ہوتا ہے ورنہ وہاں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اس رش میں ان کا فائدہ اٹھانے آئے ہوتے ہیں۔

اتوار کی صبح کافی پرجوش ہوتی تھی۔ ہمارے گھر ہر اتوار نان چنوں کا ناشتہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے تندور والا تھا اور اس کے ساتھ مختلف ریڑھی والے۔ کوئی پائے بیچ رہا ہے تو کوئی نہاری تو کوئی چنے۔ والد گھر سے دسترخوان اور پیالہ لے کر نکلتے اور دس منٹ میں گرما گرم ناشتہ لے آتے تھے۔ اس وقت نان دو روپے کا ملتا تھا، آج شاید 10 یا 15 روپے کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچپن کی یادوں میں سے کچھ یادیں لاہور کے بیچوں بیچ بہنے والی نہر سے بھی وابستہ ہیں۔ ویسے تو پورا خاندان اتوار کو سیر پر جایا کرتا تھا لیکن مہینے میں دو تین بار گھر کی خواتین بچوں سمیت نہر کا چکر بھی لگا لیا کرتی تھیں۔ مغرب کے بعد گھر سے نکلتے، اس وقت نہر پر اکا دکا لوگ ہی موجود ہوتے تھے، کوئی مناسب سی جگہ دیکھ کر بیٹھ جاتے تھے۔ کسی کا دل چاہتا تو نہر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ جاتا۔ بس ہمارا اس نہر سے اتنا سا تعلق تھا۔

ٹوئٹر سپیس میں شامل آدمیوں نے بتایا کہ ان کی شامیں بازاروں، چائے خانوں اور یونیورسٹیوں کے کیفوں میں ایک دوسرے سے شاعری اور کتابوں بارے گفتگو کرتے ہوئے گزرتی تھیں۔ ہمارا ایسا بھی کوئی تجربہ نہیں رہا۔ مڈل کلاس گھرانوں میں لڑکیوں سے معاشرے کی روایات پر سختی سے عمل کروایا جاتا ہے۔ ایک تو گھر سے نکلنا اور پھر اپنی مرضی سے دوستوں کے ساتھ کہیں بھی بیٹھے رہنا، ایسا کام ہم کبھی بھی اپنی زندگی میں نہیں کر سکے۔ ہماری سہیلیاں بھی ہمارے جیسی تھیں۔ کلاس ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کے ابو تو کسی کے بھائی تو کسی کا رکشہ یا ویگن والا انہیں لینے آیا ہوتا تھا۔

ہو سکتا ہے کچھ خواتین کا اس سے مختلف تجربہ رہا ہو مگر ہمارا اور اس سپیس میں شامل چند خواتین، جنہیں بولنے کا موقع ملا، کا کچھ ایسا ہی تجربہ رہا ہے۔

ہمارا لاہور نہر کے اردگرد بستا ہے۔ گھر بھی نہر کے قریب، یونیورسٹی بھی نہر کنارے آباد، نوکری ڈھونڈنے کی باری آئی تو وہ بھی کوشش کر کے نہر کنارے ہی ڈھونڈی۔ جتنی کوئی جگہ نہر سے دور ہوتی ہے ہمارا دل اتنا ہی وہاں نہ جانے کا کرتا ہے۔

نہر کی بات ہو رہی ہے تو کچھ ذکر اس کے قریب لگنے والی گول گپوں کی ریڑھیوں کا بھی کر لیتے ہیں۔ آپ چاہے نہر کے کسی بھی حصے پر موجود ہوں آپ کو اس کے ارد گرد گول گپوں کی دو تین ریڑھیاں نظر آ ہی جائیں گی۔ ان میں سے کس کے گول گپے اچھے ہیں اور کس کے برے، یہ ہم نہیں بتائیں گے بس اتنا کہے دیتے ہیں کہ وہاں بیٹھ کر گول گپے کھانے کا جو مزہ ہے وہ کسی فینسی ریستوران میں بیٹھ کر گول گپا شوٹ کھانے میں بالکل نہیں۔

آج ہم بیجنگ میں بیٹھے ہیں۔ یہاں سب کچھ ہے۔ بلند و بالا عمارتیں، بڑے بڑے شاپنگ مال، دنیا کی ہر کمپنی کا دفتر، ہر برانڈ، بہترین نقل و حمل کے ذرائع، بس یہاں لاہور نہیں ہے اور لاہور کی رونقیں نہیں ہیں۔ ان رونقوں کے لیے ہمیں لاہور جانا پڑے گا۔ ہمارا لاہور تو کچھ ایسا سا ہے۔ آپ کا لاہور کیسا ہے؟ ضرور بتائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی