گھوٹکی ٹرین حادثہ کیوں ہوا؟

’پاکستان ریلوے ڈیڑھ سو سال پرانا انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے، اس میں خلا ضرور موجود ہیں جنہیں وقت کے ساتھ بہتر کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے تاہم سو فیصد خامیاں دور نہیں ہوسکیں۔‘

گھوٹکی کے قریب پیش آنے والے اس ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ 32 گھنٹے بعد جاری کر دی گئی ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے مقام پر پیش آنے والے ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حادثہ ٹریک کا ویلڈنگ جوائنٹ ٹوٹنے کے باعث ہوا۔

گھوٹکی کے قریب پیش آنے والے اس ٹرین حادثے کی ابتدائی رپورٹ 32 گھنٹے بعد جاری کر دی گئی ہے۔ اس حادثے میں کم از کم 65 کے قریب افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

سکھر ڈویژن کے جوائنٹ سرٹیفکیٹ کے مطابق 590/7 کلومیٹر پر ٹریک کے ٹوٹے ویلڈنگ جوائنٹ کے اندر خلا کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔

ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریل کے ٹوٹے ٹکڑوں کے فرانزک آڈٹ کے بعد حادثے کے ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا۔ سکھر ڈویژن کی جانب سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر مشتمل جوائنٹ سرٹیفیکیٹ ہیڈ ٹرین ایگزامینر روہڑی، سی ڈبلیو آئی سکھر، ایل آئی او سکھر اور آر ٹی ایل روہڑی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پی ڈبلیو آئی میر پور متھیلو نے اس رپورٹ سے اختلاف کیا ہے۔

پی ڈبلیو آئی نے اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ حادثہ کوچ 2 -12290 کا کپلنگ سکریو اور کوچ 2-1282 کی کپلنگ پن ٹوٹنے سے ہوا۔ کپلنگ ٹوٹنے سے ٹرین دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور اچانک بریک اپلائی ہونے سے ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈی ریل ہو گئیں۔

ایف جی آئی آر کی مکمل انکوائری رپورٹ بعد میں مکمل کر کے سامنے لائی جائے گی جس میں ذمہ داروں کا حتمی تعین ہو گا۔

 

دوسری جانب ایڈیشنل جنرل مینجر (اے جی ایم) ٹریفک ریلوے پاکستان مظہر علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردوسے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ ریل گاڑیوں کے بڑے حادثات ہو چکے ہیں لیکن اب تک یہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دوسری محفوظ ترین سفری سہولت ہے۔‘

انہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان راہداری منصوبے کے تحت مین لائن ون پشاور سے کراچی تک کی اپ گریڈیشن کے جلد شروع ہونے کا عندیہ بھی دیا۔

’پاکستان ریلوے ڈیڑھ سو سال پرانا انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے، اس میں خلا ضرور موجود ہیں جنہیں وقت کے ساتھ بہتر کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے تاہم سو فیصد خامیاں دور نہیں ہوسکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خامیوں کے باجود پاکستان ریلوے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس میں مکمل بہتری سی پیک کے تحت ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن کے بعد ہی ہوگی۔ جس سے ٹریک اور ٹرینوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔‘

اظہر علی شاہ نے کہا کہ ’افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ریلوے کی بہتری کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ملک میں سب سے بڑے سفری نظام کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا، اس بار اس میں بہتری کے لیے پہلی بار کوشش کی جارہی ہے تاکہ تمام خامیاں دور کر کے ریلوے کو عالمی معیار کی ٹرینوں کے مطابق بنایا جائے۔‘

انہوں نے کہا ’گھوٹکی میں ہونے والے حادثے سے بھی خامیوں کی نشاندہی ہوئی۔ ایف جی آئی آر کی سربراہی میں ان خامیوں کو سامنے لانے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقات ہورہی ہیں جب یہ مکمل ہوں گی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ حادثہ ملت اور سرسید ایکسپریس کے درمیان پیر کی صبح گھوٹکی کے مقام پر پیش آیا جب کراچی سے فیصل آباد آنے والی ملت ایکسپریس کی چار بوگیاں پٹڑی سے اتر کر ساتھ والی پٹڑی پر گر گئیں۔ دو منٹ بعد راولپنڈی سے کراچی جانیوالی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے جا ٹکرائی۔ دونوں ٹرینوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ایک گاڑی کی چار بوگیاں پٹڑی سے اتر کر دوسری کے سامنے آنا بتائی جاتی ہے۔

حادثے کے بعد فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز، فرخ تیمور کی جانب سے سکھر میں ریلوے حادثات کے معاملے پر شائع کی گئی ایک رپورٹ بحث کا موضوع بن گئی۔

یہ رپورٹ رواں سال 7 مارچ کو کراچی ایکسپریس کو پیش آنے والے حادثے کی بعد لکھی گئی تھی جس میں ٹرین کی 16 بوگیاں روہڑی کے مقام پر پٹری سے اتر گئی تھیں۔ 

اس رپورٹ میں ریلوے سکھر ڈویژن کے ایک اہم افسر کے حوالے سے کچھ انکشافات کیے گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ کو حاصل ہونے والی ’کانفیڈینشل‘ رپورٹ میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کراچی ایکسپریس حادثے کے بعد جائے وقوعہ سے اہم شواہدغائب کیے گئے جن میں ٹوٹے ہوئے ریل کے ٹکڑے، نٹ اور بولٹس وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ حکام نے حادثے سے ملنے والے پیسینجر کوچز کے سکریو کا میٹالرجیکل ٹیسٹ کروانے سے بھی انکار کردیا تھا۔ یکم جنوری 2021 سے لے کر چھ مارچ 2021 تک ریلوے سکھر ڈویژن کے تمام افسران اور اہلکاروں کے انسپیکشن ریکارڈ دینے سے بھی حکام بالا کی جانب سے مناہی تھی۔ 

اس  رپورٹ میں سکھر  کنٹرول آفس کی جانب سے ٹرینوں کے سپیڈ گرافس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

ترجمان ریلوے نازیہ جبین کے مطابق ’کراچی ایکسپریس حادثے کی ایف جی آئی آر رپورٹ سمیت جتنے بھی حادثات کی رپورٹ جاری ہوئیں ان میں غیرذمہ داری کے مرتکب افسران اور عملہ کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔‘

دوسری جانب رپورٹ کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ انسپیکٹر آف ریلویز کی ابتدائی تحقیقات میں ہی بات سامنے آئی تھی کہ رواں سال پندرہ فروری سے لے کر چھ مارچ تک کیے گئے جائزے کے مطابق کاکئی میل یا ایکسپریس ٹرینیں ٹنڈو آدم، روہڑی اور خان پور سٹیشن پر وقت سے پہلے پہنچ رہی تھیں اور اس کی وجہ ان کی اوور سپیڈنگ تھی۔

اس معاملے کے حوالے سے جب مذکورہ افسر سے جانچ کی گئی تو ا نہوں نے تعاون کرنے سے منع کردیا۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کراچی ایکسپریس حادثے کے بعد سکھر کے روٹ پر بنے ریلوے ٹریک میں بھی خرابیوں کے کچھ شواہد سامنے آئے تھے جنہیں بعد میں غائب کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یہ شواہد اور تحقیقات اتنی اہم تھیں کہ اگر یہ مکمل ہوجاتیں تو اس روٹ پر ہونے والے حادثوں کی تعداد کو کم کیا جاسکتا تھا۔ 

حادثے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزارت ریلوے کے ڈی جی آپریشنز عمران ایاز نے بتایا کہ جس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا تھا وہاں ٹرینیں بہت تیز رفتار سے سفر کر رہی ہیں کیونکہ وہاں رفتار کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سکھر ڈویژن کے ریلوے ٹریک کی حالت خراب ہے اور پچھلے کئی سالوں سے اس کی مرمت پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ’ٹرین کا کوئی بھی حادثہ اچانک سے نہیں ہوتا، حادثے کی وجہ کو ابھرنے میں کئی سال لگتے ہیں۔‘

ان  کے بقول سکھر ڈیویژن کے  ٹریک کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس کی مرمت میں تقریباً 20 لاکھ ڈالر لگیں گے۔ یہ مرمت ایم ایل ون منصوبے کی وجہ سے بھی تاخیر کا شکار ہے۔ ’ہم نے اس پر ابھی پیسے لگا دیے کو بعد میں ہم سے سوال کیا جائے گا کہ ایم ایل ون میں جب اس کی مرمت ہونی تھی تو آپ نے پہلے اس پر پیسے کیوں لگائے۔ اسی وجہ سے 2017 سے لے کر 2021 تک اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔‘

کراچی ایکسپریس حادثے کی رپورٹ کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’رپورٹ ہم نے دیکھی ہے اور اپروو بھی کر دی ہے۔ ہم نے چار دن کے اندر اندر ہی رپورٹ پڑھ کر اس پر جواب دے دیا تھا۔ سکھر ڈویژن کو ہمارے طرف سے کافی معلومات بھی دی جاچکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جن افسراران کے حوالے سے اس رپورٹ میں انکشافات کیے گئے ہیں، انہیں چارج شیٹ دی جائے گی اور ان پر لگائے گئے تمام الزامات کے حوالے سے ان سے جواب طلب کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک انکوائری افسر کا انتخاب کیا جائے گا جو کہ اس معاملے کی جانچ کرے گا۔ یہ ایک ایکسیڈنٹ انکوئری ہے، اس میں پانچ سے چھ افراد ملوث ہوسکتے ہیں۔ ہر افسر کی الگ الگ انکوائری ہوگی۔

ہم نے جب ان سے پوچھا کے رواں سال مارچ میں شائع ہونے والی رپورٹ پر ابھی تک ایکشن کیوں نہیں ہوا ہے تو ڈی جی آپریشنز کا کہنا تھا: ’مارچ میں وہ رپورٹ منسٹری کو موصول ہوگئی تھی۔ جس کے بعد تین سے چار دنوں میں اس کی چانچ کر کے ہم نے متعلقہ حکام کو اطلاع کر دی تھی۔ تاہم ابھی بھی اس رپورٹ کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان