افغانستان کا ڈیم جس کی بجلی کا معاوضہ طالبان وصول کرتے ہیں

ایک انتہائی غیر معمولی سمجھوتے کے ذریعے حکام نے آس پاس رہنے والے شورش پسندوں کو مقامی افراد سے توانائی کا معاوصہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔

افغانستان میں پن بجلی پیدا کرنے والا ایک اہم ترین ڈیم عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان عمل داری قائم کرنے کی جدوجہد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ ڈیم اس علاقے میں واقع ہے جو طالبان کے قبضے میں ہے۔

کجاکی ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کو ملک کے جنوب میں تقریباً 30 لاکھ افراد تک پہنچایا جاتا ہے، جن میں قندہار اور لشکرگاہ نامی شہر بھی شامل ہیں جہاں حکومت کی عملداری قائم ہے۔

لیکن ایک انتہائی غیر معمولی سمجھوتے کے ذریعے حکام نے آس پاس رہنے والے شورش پسندوں کو مقامی افراد سے توانائی کا معاوضہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔

بجلی گھر کے دورے کے موقع پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا گیا کہ یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی کا پانچواں حصہ طالبان کے زیر اثر اضلاع کجاکی، سنگین اور موسی قلعہ میں استعمال کی جاتی ہے۔

ضلع کجاکی کے گورنر عبدالرزاق نے بتایا کہ عسکریت پسند ہر ماہ مقامی افراد سے استعمال کی جانے والی بجلی کے محصولات جمع کرتے ہیں۔

یہ صلح نامہ طالبان کو ڈیم کی حفاظت کرنے والے فوجیوں پر مسلسل حملے کرنے سے نہیں روک پایا اور جو شہری درمیان میں پھنسے ہوئے ہیں وہ عام طور پر اس کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔

کجاکی ڈیم کی تاریخ

دریائے ہلمند پر قائم کجاکی ڈیم 1950 میں ایک امریکی ادارے نے بنایا تھا تاکہ دریا کے بہاؤ کو قابو کیا جاسکے، جس سے کسان فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے بعد 1975 میں اسے مزید بہتر بنایا گیا۔

2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد واشنگٹن نے اس ڈیم پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تاکہ وہ مقامی افراد کے دل جیت سکیں۔ غیر ملکی انجینیئرز نے کام مکمل کرنے کی کوشش کی اور تیسری ٹربائن نصب کی لیکن بعد میں وہ بھی ہمت ہار بیٹھے۔

اس کے بعد افغان حکومت نے 77 کنسٹرکشن نامی ترک کمپنی کو اس ڈیم کا کام سونپا اور تیسری ٹربائن کے نصب کیے جانے کے بعد اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے برس دوسرا بجلی گھر تیار ہو جائے گا۔

وکٹوں کے دونوں جانب کھیلنا پڑتا ہے

ایک محاصرہ زدہ علاقے میں ترقیاتی کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ترک کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار عادل کیانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم صرف ہیلی کاپٹرز پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم ایک ٹماٹر اس کے بغیر یہاں نہیں لاسکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیم پر کام کرنے والے افراد کی اکثریت ان علاقوں سے ہے، جہاں طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہے اور ان کو دو اجازت ناموں کی ضرورت پڑتی ہے۔

ایک مزدور محمد اکبر نے بتایا: ’میرے پاس طالبان کی جانب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور حکومت کا جاری کردہ شناختی کارڈ۔‘

محمد داؤد نامی مستری مستقل محاذ سے گزرتے ہیں اور یہ سفر روز بروز خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ 10 منٹ کا سفر اب چار گھنٹے طویل ہوگیا ہے اور میں بہت خوف زدہ ہوں۔‘

اگر کوئی بچہ بیمار ہو تو کیا ہوتا ہے؟

کجاکی ڈیم اور محاذ جنگ کے درمیان ایک مقام ٹانگے ہے، جو گاؤں کا بازار ہے اور زیادہ تر جنگ کے دوران تباہ ہوگیا ہے۔

یہاں صرف 30 خاندان اور چند دکانیں ہیں جو اب بھی کھلتی ہیں۔ ان میں ایک بیکری بھی شامل ہے جو مسلح افواج کو سامان پہنچاتی ہے۔

یہاں آٹا، خودنی تیل اور چاول سمیت دیگر انتہائی ضروری اشیاء صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی لائی جاتی ہیں۔

ایک دیہاتی سابق پولیس افسر، جو ایک لڑائی میں زخمی ہوگئے تھے، نے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر کوئی بچہ بیمار ہوجاتا ہے تو وہ جان سے چلا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے پاس کوئی دوا یا ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا