پارلیمانی گفتگو سے پرہیز کریں

’کیا جناب سپیکر اس قوم کی رہنمائی فرمائیں گے کہ رکن پارلیمان کو گالیوں کی کتنی اقسام پر کتنا عبور ہو تو وہ اچھے کردار کی ضمانت سمجھا جا سکتا ہے؟‘

(ویڈیو سکرین گریب: شیزا فاطمہ، رکن قومی اسمبلی، مسلم لیگ ن)

 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں

ایک زمانہ تھا غیر پارلیمانی گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔  نئے پاکستان کی پارلیمانی روایات دیکھ کر لگتا ہے آئندہ اہتمام کچھ یوں ہو گا کہ یہ شرفا کی محفل ہے یہاں ’پارلیمانی گفتگو‘ سے پرہیز کریں۔

اراکین پارلیمان کا رویہ دیکھا اور ان کے منہ سے مغلظات سنیں تو دستور پاکستان اٹھا لیا کہ دیکھوں تو سہی اس مقدس ایوان میں آنے والے ان معزز اراکین پارلیمان کی اہلیت کی کچھ شرائط بھی ہیں یا گوالمنڈی اور راجہ بازار کی طرح یہ ایوان بھی شاہراہ عام ہے، جو آئے، جب آئے اور جس حال میں آئے۔ چلم بھرے، پان لگائے یا پچکاری پھینک کر چل دے۔ اذن عام ہے۔

آئین کے آرٹیکل 62 ( ڈی) کے تحت رکن پارلیمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اچھے کردار کا مالک ہو اور اسلامی تعلیمات سے انحراف نہ کرتا ہو۔  جو گالیاں ہم نے معز اراکین پارلیمان کے منہ سے اس ایوان میں سنیں، کیا وہ اچھے کردار کی گواہی دے رہی ہیں؟ کیا جناب سپیکر اس قوم کی رہنمائی فرمائیں گے کہ گالیوں کی کتنی اقسام پر کتنا عبور ہو تو وہ اچھے کردار کی ضمانت سمجھا جا سکتا ہے؟ 

 یہ آئین کی کیسی شرح ہے کہ کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر ماں بہن کی گالی دینے کے باوجود معزز اراکین پارلیمان تاحال نہ صرف معزز ہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت ’اچھے کردار کے مالک‘ بھی ہیں اور ان کے خلاف نہ جناب سپیکر نے کوئی کارروائی کی ہے نہ الیکشن کمیشن نے غور فرمانے کی کوئی زحمت کی ہے کہ ایوان میں گندی گالیاں دینے والے آئین کے تحت کتنے کلو گرام اچھے کردار کے مالک قرار پائیں گے۔

آئین کے تحت رکن پارلیمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی امین ہو اور دیانت دار ہو، دانشمند ہو، راست باز ہو، فاسق نہ ہو۔ اب معاملہ یہ ہے کہ آئین میں تو کہیں نہیں بتایا گیا کہ فاسق کون ہو گا۔  البتہ فقہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ گالی دینا فاسق ہونے کی علامت ہے۔ اسی طرح آئین نے تو یہ واضح نہیں کیا کہ امین اور دیانت دار ہونے کا کیا مطلب ہے لیکن یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ جب معزز اراکین پارلیمان تشریف لاتے ہیں اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کیے کہے بغیر لوٹ جاتے ہیں یا ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں تو اوسطاً یومیہ پانچ سے چھ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ تو کیا کوئی ہے جو ہمیں بتائے کہ کہ غریب قوم کو ان گالیوں اور اس غیر سنجیدگی پر مبنی ایک نشست پر چھ کروڑ خرچ کرنے پڑیں تو کیا یہ ان معزز اراکین کی سمجھداری، دانائی، امانت اور دیانت کہلائے گی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارلیمان ہوتی کس لیے ہے؟ کیا یہ معزز ایوان اس لیے قائم ہوا ہے کہ غیر معمولی مراعات کو مال غنیمت کی طرح اشرافیہ پر لٹا دیا جائے اور اس کے بدلے قوم کو تھوڑی سی غیر سنجیدگی، تھوڑے سے چٹکلے اور کچھ گندی گندی گالیاں سننے کو ملیں؟ 

غریب قوم ان معزز اراکین کو کیا کچھ نہیں دیتی۔ موجودہ ہی نہیں سابقہ اراکین پارلیمان اور ان کے اہل خانہ بھی تاحیات گریڈ 22 کے افسر کی میڈیکل سہولیات کے حقدار ہیں اور ہر سابق اور موجودہ  رکن پارلیمان ہی کو نہیں اس کی اہلیہ اور شوہر کو بھی تاحیات بلیو پاسپورٹ دیا جاتا ہے۔ تنخواہ اور ڈھیر ساری مراعات اور الائونسز اس کے سوا ہیں کہ یہ خود ہی اپنی مراعات میں اضافہ فرما لیتے ہیں۔ یہ سارے ناز نخرے کیا یہ قوم اس لیے برداشت کرتی ہے کہ قانون سازی تو صدارتی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہوتی رہے اور ایوان میں گالیاں دی جاتی رہیں۔

چیزوں کی ترتیب ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ پارلیمانی روایات میں یہ حزب اختلاف تھی جو احتجاج کیا کرتی تھی۔ حزب اقتدار کا کام احتجاج کرنا نہیں تھا، اس کا کام حکومت کرنا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا کہ حزب اقتدار بھی احتجاج کر رہی ہے اور اسے کوئی پروا نہیں کہ ہاؤس کو چلانا اس کی ذمہ داری ہے۔ جہاں کوئی پیچیدگی آتی ہے صدارتی فرمان جاری کر دیا جاتا ہے اور اسمبلی اسی کام کے لیے رہ گئی ہے جس کا ہم نے کل مشاہدہ کیا۔ معلوم نہیں یہ محض افتاد طبع کے مسائل ہیں یا پورے پارلیمانی نظام کو آخری درجے میں بے توقیر کرنا مقصود ہے۔ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔

تند خو اور بد مزاج لوگ ہر جماعت میں ہوتے ہیں اور سیاسی ضروریات کے پیش نظر ان کی خدمات سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے لیکن ہر جماعت کے پاس کچھ تحمل مزاج دھیمے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کہیں راجہ ظفر الحق جیسے اور کہیں رضا ربانی جیسے۔ تحریک انصاف مگر ایسے کسی تکلف کی روادار نہیں۔ یہاں ہر بندہ شہ سوار ہے اور زبان بکف ہے۔ گاہے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ایسے رویے کی باقاعدہ تحسین اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے چنانچہ ہر آدمی بے قرار ہے کہ میدن کارزار میں زبان کے جوہر دکھا سکے اور سرخرو ہو سکے۔ اس رویے نے سماج کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔

ہیجان، دشنام اور پوسٹ ٹروتھ ۔۔۔۔  یہ پاپولزم کی سیاست کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ مخالف کسی بھی صف کا کیوں نہ ہو اس کے لیے کوئی امان نہیں ہوتی۔ پاپولزم جسٹس وجیہ الدین اور حامد خان جیسوں کو اگل دیتا ہے اور اس کی نظر میں ایسے لوگ معتبر ہو جاتے ہیں جو گالیاں دے کر بد مزہ ہوتے ہوں نہ گالیاں کھا کر۔

معاشرہ مہنگائی اور غربت کے آزار سے تو نکل آئے گا لیکن جس سونامی نے معاشرے کی اخلاقی قدروں کو آ لیا ہے اس کے اثرات بہت دیرپا ہوں گے اور بہت مہلک۔ اگلے روز سینیٹر نگہت مرزا کہنے لگیں کہ ’میں گھر گئی تو میری نواسی کہنے لگی: نانو یہ آپ جن لوگوں کے ساتھ ایوان میں بیٹھتی ہیں یہ اچھے لوگ نہیں، دیکھیے تو کیسے گفتگو کرتے ہیں، آپ وہاں نہ جایا کریں۔‘

ایک بچی نے جو  اخلاقی بحران محسوس کر لیا وہ بحران ہماری سیاسی قیادت کو نہیں دکھائی دے رہا۔

بے نیازی کا یہی عالم رہا تو وہ وقت دور نہیں جب لوگ اہتمام کیا کریں گے کہ یہ شرفا کی محفل ہے،  یہاں ’پارلیمانی گفتگو‘ سے پرہیز کریں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ