لاہور: مدرسہ استاد کی نوجوان کے ساتھ وائرل ویڈیو پر غم و غصہ

مدرسہ جامعہ منظور الاسلام لاہور سے وابستہ اور جمعیت علمائے اسلام، لاہور کے سینیئر نائب امیر مفتی عزیز الرحمٰن کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس سکینڈل کی تحقیقات کروا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

مفتی عزیز الرحمٰن نے وائرل ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا (ویڈیو سکرین گریب)

لاہور کے مدرسے جامعہ منظور الاسلام سے منسلک مفتی عزیز الرحمٰن کی ایک نوجوان کے ساتھ نازیبا حرکات پر مشتمل ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگ مولانا عزیز الرحمٰن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بول ٹی وی سے وابستہ اینکر پرسن جمیل فاروقی کی جانب سے گذشتہ روز ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ویڈیو میں مذکورہ نوجوان کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے: ’اس وقت میں ایک جگہ پر چھپا ہوا ہوں۔ اب جب  بات سامنے آگئی ہے تو مفتی عزیز الرحمٰن اور ان کے بیٹے مجھے بلیک میل کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے جان سے مار دیں گے۔‘

نوجوان کا مزید کہنا تھا: ’میں نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ میرے سب سے بات کرنے کے باوجود کسی نے میری بات نہیں سنی، انہوں نے مجھے جان سے مارنا ہے تو اس سے اچھا ہے کہ میں خودکشی کرلوں۔‘

مفتی عزیز الرحمٰن، جو کہ جمعیت علمائے اسلام کے لاہور کے سینیئر نائب امیر بھی ہیں، کی نوجوان کے ساتھ نازیبا حرکات کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس سکینڈل کی تحقیقات کروا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

علی رضا نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’جو سکالرز بے حیائی پر لیکچر دیتے ہیں وہ خود کیا کر رہے ہیں، جے یو آئی اور دیگر علما کو خود کو مفتی عزیز سے لاتعلق قرار دینا چاہیے۔‘

داؤد نامی صارف نے تحریر کیا: ’مفتی کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘

ایک اور ٹوئٹر صارف نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت کو مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام بچوں کے میڈیکل ٹیسٹ فی الفور کروانے چاہییں، اس خطرے کو اب ختم ہونا چاہیے۔‘

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد مدرسہ جامعہ منظور الاسلام کے ناظم خلیل اللہ ابراہیم کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا: ’صابر نامی لڑکا میرے پاس مفتی عزیز الرحمٰن کی شکایت لے کر آیا تھا مگر میں نے اس پر اعتبار نہیں کیا۔ یہی لڑکا کچھ عرصے بعد میرے پاس ویڈیو لے کر دوبارہ آیا تو میں نے واقعے کی تصدیق کی جو کہ سچ ثابت ہوا۔ اس کے بعد ہم نے مولانا عزیز الرحمٰن کو فارغ کر دیا اور اب ان کا جامعہ اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

مدرسے کی جانب سے مولانا عزیز الرحمٰن کی برخاستگی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سب کے بعد مولانا عزیز الرحمٰن نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’صابر شاہ نامی نوجوان نے مجھے چائے میں نشہ آور چیز ملا کر پلائی جس کے بعد یہ ویڈیو بنائی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ویڈیو بننے کے وقت میں ہوش و حواس میں نہیں تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ویڈیو ڈھائی سال پرانی ہے اور اسے میرے خلاف استعمال کرنے کے لیے مدرسے کے منتظمین کے حوالے کیا گیا ہے۔‘

اس ضمن میں جامعہ منظور الاسلام کے مہتمم مولانا اسداللہ فاروق کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم  نے تین جون کو مولانا عزیز الرحمٰن کو ادارے سے فارغ کر دیا تھا۔ ہم قانون نافذ کرنے والوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اب تک ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟‘

مولانا اسداللہ فاروق نے اپنے بیان میں سی سی پی او سے درخواست کی کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل