چین کا نیا خلائی سٹیشن اہم کیوں؟

تین چینی خلابازوں کا عملہ چین کے نئے خلائی سٹیشن کی جانب رواں دواں ہے جہاں وہ تین ماہ قیام کرے گا۔

چین نے اپنے تین خلا باز اپنے نئے خلائی سٹیشین تیان گونگ روانہ کردیے ہیں جو تین ماہ وہاں رہیں گے۔

زمین کے مدار میں گھومتے نئے چینی خلائی سٹیشن میں عملے کا اضافہ خلائی دوڑ میں چین کا اثر و رسوخ بڑھانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس مشن پر تجزیہ کیا ہے۔

مشن کا مقصد کیا ہے؟

تین خلاباز تین ماہ کے لیے سٹیشن پر رہیں گے جہاں وہ سائنسی تجربات کے ساتھ ساتھ مینٹیننس کا کام کریں گے اور خلا میں چہل قدمی اور اگلے سال دو مزید موڈیول موصول کرنے کی تیاری کریں گے۔

جہاں چین نے اعتراف کیا ہے کہ وہ خلائی دوڑ میں دیر سے شامل ہوا وہیں اس کا کہنا ہے کہ اس کا یہ سٹیشن جدید ترین ہے۔

اس مشن میں پانچ سال بعد چین نے انسانی عملے کو خلا میں بھیجا ہے۔ جمعرات کی لانچ کے بعد سے اب تک چین خلا میں 14 خلاباز بھیج چکا ہے۔

چین خلائی سٹیشن کیوں بنا رہا ہے؟

لانچ سینٹر پر ایک پریس کانفرنس میں بدھ کو چائنہ مینڈ سپیس ایجنسی کی نائب صدر جی کیمنگ نے صحافیوں کو بتایا کہ خلائی سٹیشن کی تعمیر اور اسے چلانا چین کی ٹیکنالوجی میں اضافہ کرے گا اور ’تمام لوگوں کے لیے تجربہ جمع کرے گا۔‘

سیاست اور سکیورٹی

چین کا خلائی پروگرام اس کے لیے قومی قخر کا باعث ہے جس سے اس کا گذشتہ 40 سالوں میں غربت سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں تبدیل ہونا جڑا ہے۔ اس سے کمیونسٹ پارٹی کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جس کا سخت آمرانہ راج سیاسی سرگرمیوں کو محدود آزادی دیتا ہے۔

صدر اور پارٹی کے سربراہ شی جن پنگ نے خود کو اس کامیابی سے جوڑا ہے۔ نئے خلائی سٹیشن کو پہلا مشن ایک ایسے وقت بھیجا گیا ہے جب اگلے ماہ کمیونسٹ پارٹی کی سو سالہ سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی کے ساتھ ساتھ چین اپنی فوج کو تیز رفتاری سے جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے جس سے پڑوسی ممالک، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ اگرچہ چین مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر خلا میں پرامن ترقی کی حمایت کرتا ہے لیکن بہت سے لوگ چین کے جنوری 2007 کے اس اقدام کو یاد کرتے ہیں جب اس نے ایک غیر فعال موسمی مصنوعی سیارے کو تباہ کرنے کے لیے خلا میں ایک بیلسٹک میزائل بھیجا تھا۔ اس نے خلا میں مصنوعی سیارے کا ملبہ پھیلا دیا تھا جو اب بھی ایک خطرہ ہے۔

خلاباز کون ہیں؟
مشن کمانڈر نی ہایشینگ کی عمر 56 برس ہے اور ان کے ساتھی خلاباز لو بومنگ 54 برس اور ٹانگ ہونگبو 45 سال کے ہیں۔ یہ سب پیپلز لبریشن آرمی کے سابق ایئر فورس پائیلٹس ہیں جو فارغ التحصیل ہیں اور مضبوط سائنسی پس منظر کے حامل ہیں۔

اب تک کے تمام چینی خلابازوں کو فوج سے بھرتی کیا گیا ہے جس سے چین کے خلائی پروگرام سے اس کی فوج کے قریبی تعلق کی تائید ہوتی ہے۔ 

یہ نی کا تیسرا خلائی سفر ہوگا اور لو کا 2008 کے مشن کے بعد دوسرا سفر ہوگا جس میں چین نے اپنی سب سے پہلی خلائی چہل قدمی بھی کی تھی۔ تانگ 2010 میں امیدواروں کی دوسری کھیپ میں بھرتی ہوئے تھے وہ پہلی بار خلا میں جائیں گے۔ 

چینی حکام کا کہنا ہے کہ خلائی سٹیشن پر جانے والے مستقبل کے مشنز میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ حکام کے مطابق ان مشنز کا دورانیہ چھ ماہ تک ہوسکتا ہے اور اس وقت سٹیشن پر چھ سے زیادہ خلاباز موجود ہو سکتے ہیں۔ 

چائنہ مینڈ سپیس ایجنسی کی نائب صدر جی کیمنگ نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ چین بین الاقوامی تعاون اور تبادلوں میں تیزی لا رہا ہے اور یہ کچھ ہی وقت کی بات ہے جب غیر ملکی خلاباز چین کے ساتھیوں کے ساتھ اس سٹیشن پر جانے والے مشن میں شریک ہو سکیں گے۔ 

چین خلا میں اور کیا کر رہا ہے؟

انسانی عملے کے خلائی پروگرام کے ساتھ ساتھ چین روبوٹک خلائی جہاز کی مدد سے نظام شمسی کی کھوج میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس نے گذشتہ ماہ مریخ پر تحقیقات کے لیے روور کو بھیجا تھا۔ چین زورونگ کے ذریعے مریخ کی سطح پر مختلف سروے کر رہا ہے جو کہ خاص طور پر منجمد پانی کی تلاش کے سلسلے میں ہیں۔ پانی کی موجودگی سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ سرخ سیارے پر کبھی زندگی موجود تھی۔

اس سے قبل چین نے چاند کے اس حصے کی جانب تحقیقی مشن اور روور کو روانہ کیا تھا جو کہ ابھی کم ہی دریافت ہوا ہے۔ روور نے یوتو نامی دوسرے روور کے ساتھ مل کر چاند کی سطح پر تلاش کے مشن میں حصہ لیا جو پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ 

1970 کی دہائی کے بعد سے اب تک چین پہلا ملک ہے جو خلائی پروگرام کے ذریعے چاند کا کوئی نمونہ لانے میں کامیاب ہوا ہے حکام کا کہنا ہے کہ وہ چینی خلابازوں کو چاند پر بھیجنا چاہتے ہیں اور وہیں تحقیقاتی مرکز بنانا چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا