’بھاگ ملکھا بھاگ‘: سٹار ایتھلیٹ ملکھا سنگھ زندگی کی ریس ہار گئے

بھارت کے کامیاب ترین ٹریک ایتھلیٹس میں سے ایک ملکھا سنگھ کووڈ میں مبتلا ہو کر 91 کی عمر میں چل بسے۔

ملکھا سنگھ نے1958 اور1962 کے ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا (اے ایف پی)

بھارتی میڈیا نے جمعے کو کہا ہے کہ بھارت کے کامیاب ترین ٹریک ایتھلیٹس میں سے ایک ملکھا سنگھ کووڈ میں مبتلا ہو کر 91 کی عمر میں چل بسے۔

موت کی خبر آنے کے بعد 'اڑنے والے سکھ' (flying sikh) کے نام سے شہرت پانے والے ملکھا سنگھ کو سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے خراج تحسین پیش کیا۔

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ انہیں ملکھا سنگھ کی وفات کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں لکھا: ’ہم ایک عظیم سپورٹس مین سے محروم ہو گئے جنہوں نے پوری قوم کی توجہ حاصل کی اور ان گنت بھارتی شہریوں کے دل میں جگہ بنائی۔

’ان کی متاثرکن شخصیت کی بدولت وہ لاکھوں لوگوں کو بہت عزیز تھے۔‘

ملکھا سنگھ کے بیٹے اور گالف کے معروف کھلاڑی جیو ملکھا سنگھ نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا ’والد چل بسے ہیں۔‘

انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ 20 مئی کو ملکھا سنگھ  کا کرونا (کورونا) وائرس کا پہلا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اخبار کے مطابق اس سے پہلے ان کی اہلیہ نرمل کور بھی وائرس میں مبتلا کر اسی ہفتے چل بسی تھیں۔

ملکھا سنگھ 1929 میں گوبند پورہ میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ انہوں نے1947 کی ہنگامہ خیز تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے وقت اپنا خاندان کھو دیا تھا جس کے بعد ملک کے پہلے کم عمر ترین ایتھلیٹ ہیرو کا اعزاز ان کے حصے میں آیا۔

انہوں نے1958 اور1962 کے ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا۔

تاہم انہیں 1960 میں روم میں ہونے والے اولمپک مقابلوں سے شہرت ملی جب انہوں نے 400 میٹر کی دوڑ میں حصہ لیا۔

دوڑ میں فاتح کا فیصلہ کرنے کے لیے دوڑ کے خاتمے کی لکیر تک پہنچنے کی تصویر کی ضرورت پڑی تھی۔ اس عمل میں ان کا چوتھا نمبر قرار پایا۔

ان کا یہ فاصلہ 45.73 سیکنڈ میں طے کرنے کا قومی ریکارڈ تو 40 سال تک برقرار رہا لیکن ان کا اولمپک میڈل جیتنے کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکا۔

ممتاز ایتھلیٹ بننے کے بعد وہ قومی ہیرو بن گئے۔ 2013 میں 'بھاگ ملکھا بھاگ' کے نام سے فلم بھی بنائی گئی۔

یہ الفاظ ان کے والد کے تھے جو انہوں نے مایوسی کے عالم میں آخری مرتبہ کہے تھے۔

جب ان کے والد موت کے منہ تھے تو انہوں نے ملکھا سنگھ کو بھاگنے کے لیے کہا تھا کہ کہیں وہ ان ہنگاموں میں مارے نہ جائیں جو تقسیم ہند کے بعد پورے برصغیر میں پھوٹ پڑے تھے۔

مانا جاتا ہے کہ ان فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ ملکھا سنگھ زندگی بچانے کے لیے دوڑے اور نقل مکانی کرنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ ریل گاڑی میں سوار ہو گئے۔

فلم کے ہدایت کار راکیش مہرا کا کہنا تھا کہ ’ہم سب ملکھا سنگھ کی لوک داستانوں کے ساتھ پلے بڑھے۔ وہ ہمارے لیے زندگی سے بڑھ کر بڑی شخصیت تھے۔ان کا وہی مقام ہے جو مغرب کے لیے فٹ بولر پیلے یا ایتھلیٹ جیسی اوینز کا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہدایت کار مہرا صرف ملکھا سنگھ کی کامیابیوں کی وجہ سے ان کی داستان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ ایتھلیٹ کے نئی نئی وجود میں آنے کے بعد اپنے آپ کو منوانے کے لیے کوشاں قوم پر پڑنے والے اثرات تھے جس کی وجہ سے جنہوں نے انہیں متوجہ کیا۔

وہ انہیں سیاست سے باہر ملک کا پہلا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ شخص اپنے خوف سے کبھی دور نہیں بھاگا بلکہ وہ انہیں ساتھ لے کر بھاگا۔‘

ہفتے کے دن کے آغاز سے ہی بھارت میں سوشل میڈیا پر ملکھا سنگھ کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے لکھا: ’مجھے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے کئی بار میرے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ شفیق اور مہربان ترین ملکھا سنگھ سر ریسٹ ان پیس۔ دنیا آپ جیسے لیجنڈ کی کمی محسوس کرے گی۔‘

کرکٹر جسپریت بمرا نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’آنے والی نسلوں کے لیے ان کا ورثہ موجود رہے گا۔ ریسٹ ان پیس ملکھا سنگھ سر۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل