مردان: مصالحتی کونسل کی واحد خاتون رکن

مردان کی ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کی واحد خاتون رکن نصرت آرا پچھلے دو سالوں میں خواتین کے ایک ہزار سے زائد تنازعات حل کرنے میں مدد کر چکی ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (ڈی آر سی) یا مصالحتی جرگے میں نہ صرف مردوں کے مسئلے حل ہوتے ہیں بلکہ خواتین بھی بغیر وکیل اور کم وقت میں وراثت، گھریلو جھگڑوں سمیت اپنے دیگر مسائل حل کرانے آتی ہیں۔

ضلع مردان کے ڈی آر سی کی واحد خاتون رکن نصرت آرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ڈی آر سی میں دو سال سے پینل میں رکن کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک پینل کے کم ازکم پانچ رکن ہوتے ہیں اور ہر دن کا الگ پینل ہوتا ہے۔ ’میں بحیثیت خاتون رکن منگل کے پینل کی رکن ہوں اور اس کے لیے تین ماہ لگے۔ تمام ایجنسیز کو میرا نام اور میرے تمام کاغذات بھیجے گئے جب پشاور سے ویری فکیشن ہوئی تب مجھے ڈی آر سی کا رکن بنایا گیا۔‘

خواتین منگل کے علاوہ بھی آتی ہیں لیکن جو چاہتی ہیں کہ صرف خاتون رکن سے بات کریں تو انہیں منگل کو آنا پڑتا ہے۔

ڈی آر سی میں خواتین کی کس قسم کے کیس آتے ہیں؟

نصرت آرا نے بتایا کہ خواتین کے زیادہ تر کیس وراثت کے ہیں کیونکہ وراثت میں ان کو حق نہیں دیا جاتا اور جب وہ حق مانگتی ہیں تو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور گھر کے مرد انہیں بند کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ساتھ رشتہ ختم کردیا جاتا ہے۔

’میاں بیوی کے جھگڑے بھی زیادہ آتے ہیں۔ ان کے درمیان، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں اور نوبت طلاق اور خلع تک پہنچتی ہے تو ہم یہاں پران کے مسائل حل کر دیتے ہیں۔

’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ فریقین کو سنیں عورت کا موقف بھی سنیں اور مرد کا بھی۔‘

ڈی آر سی میں خواتین کے کتنے کیس آئے ہیں؟

نصرت آرا نے بتایا کہ ابھی تک ڈی آرسی میں کُل چھ سے سات ہزار کیس آئے ہیں جس میں ’میرے خیال میں ہزار سے اوپر یعنیٰ بارہ، تیرہ سو خواتین کے آپس میں لڑائی جھگڑے اور گھریلو تنازعات ہیں، ایسے تمام کیس یہاں پر حل ہوئے ہیں اور میاں بیوی کو راضی کر کے بھیجا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ضلع مردان میں ان کے علاوہ کوئی خاتون ڈی آر سی کی رکن نہیں جبکہ ڈی آر سی میں خواتین ارکان کی ضرورت ہے کہ پختون معاشرے میں کچھ باتیں اس طرح ہوتی ہیں کہ خواتین مردوں کے سامنے نہیں کرسکتیں تو پھر وہ جا کر پردے میں سننی پڑتی ہیں اور ان کو علم ہو جاتا ہے کہ اصل بات کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی خواتین جو رضاکارانہ طور پر اپنا وقت دے سکیں اور انہیں قانون اور شریعت کا علم ہو تو وہ ضرور آگے آئیں کیونکہ یہ ادارہ قانون سے بالاترہو کر کام نہیں کرسکتا۔

’ہم نے قانون کو اور نہ ہی شریعت کوچھوڑنا ہے تو بیچ کا راستہ نکالنا ہوتا ہے کہ ایسا فیصلہ نہ ہوجائے کہ پھرعدالت میں چیلنج ہو اور ہمارے ڈی آر سی کی شرمندگی کا باعث بنے۔‘

کیا ڈی آر سی میں خواتین کے مسائل آسانی سے حل ہوتے ہیں؟

نصرت آرا نے بتایا کہ جب ایک عورت کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو وہ دوسری کو بتا دیتی ہے کہ وہاں ایک عورت موجود ہے۔

’جب خواتین کو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر ایک عورت موجود ہے جو ہماری بات سنے گی بھی اوراپنے الفاظ میں بیان بھی کردے گی تو اس وجہ سے ڈی آر سی میں خواتین کے کیسز کا رجحان بڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں بھی خواتین کو بتاتی ہوں کہ یہاں پر ڈی آر سی موجود ہے جس میں صرف وراثت نہیں بلکہ کم عمری کی شادی، ساس بہو یا میاں بیوی، بہن بھائیوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، یہ ہم سب یہاں پرحل کرتے ہیں تو عورتیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔‘

ڈی آرسی کے رجسٹرار احسان اللہ باچا نے بتایا کہ سابق آئی جی پولیس ناصر درانی نے خیبرپختونخوا حکومت کو ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کا خاکہ تیار کر کے دیا تھا۔

’پھر صوبے کے ہر ضلعے میں لانچ کرنے کا پروگرام بنایا گیا اور پہلی دفعہ پشاور اور اس کے بعد دوسری ڈی آر سی مردان کا قیام 2015 میں عمل میں لایا گیا۔ اب مردان کی پانچ تحصیلوں میں الگ الگ ڈی آرسی کام کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ مردان کی ڈی آرسی نے پانچ چھ سالوں میں تقریباً سات ہزار کیس نمٹائے ہیں۔

’ڈی آر سی کے حوالے سےعدلیہ کے ساتھ آج سے تین سال پہلے ہماری ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں ایک محترم جج نے اعتراف کیا کہ ڈی آر سی کے قیام کے بعد تھانوں اور عدالتوں پر کیسوں کا بوجھ کم ہوا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا