لاہور: ’خطرے کی وجہ سے عائشہ اکرم پولیس کی حفاظتی تحویل میں‘

یوم آزادی پر مینار پاکستان پر ہونے والی اجتماعی ہراسانی کی متاثرہ خاتون کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اس لیے وہ پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہیں، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ گرفتاریاں کی ہیں۔

لاہور میں خاتون کو سیکڑوں افراد کے درمیان پھنسے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن پر تشدد کیا جا رہا ہے اور چند افراد انہیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں (سوشل میڈیا سکرین گریب)

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں یوم آزادی پر گریٹر اقبال پارک میں خاتون کے ساتھ اجتماعی ہراسانی اور بدسلوکی کے واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں جبکہ خاتون کو پولیس نے حفاظتی تحویل میں لے رکھا ہے۔

متاثرہ خاتون کے بھائی صدام حسین کے مطابق واقعے کی ویڈیو وائرل ہونےکے بعد انہیں مختلف فون کالز موصول ہوئیں اور گھر پر بھی لوگوں کا آنا جانا لگا تھا، اس لیے پولیس نے عائشہ کو حفاظتی تحویل میں رکھا ہوا ہے تاہم گھر والوں کو ملاقات کی اجازت ہے۔

مثاثرہ خاتون عائشہ اکرم بیگ نرس ہیں اور ٹک ٹاک ویڈیوز بھی بناتی ہیں۔ وہ یوم آزادی کے دن مینار پاکستان ایک ویڈیو بنانے آئی تھیں جب پولیس رپورٹوں اور سوشل میڈیا ویڈیوز کے مطابق چار سو سے زائد مردوں کے ہجوم نے انہیں گھیر لیا، بدسلوکی کی اور کپڑے پھاڑے۔

مینار پاکستان واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات جاری ہیں اور پنجاب حکومت نے واقعے کے سلسلے میں ناکامی دکھانے پر ایس ایس پی آپریشنز سید ندیم عباس اور ایڈیشنل ایس پی آپریشن حسن جہانگیر کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے آئی جی آفس رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ڈی ایس پی بادامی باغ عثمان حیدر اور ایس ایچ او راوی روڈ محمد جمیل کو معطل کردیا ہے۔ دوسری جانب گریٹر اقبال پارک کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاریں نے واقعے کے حوالے سے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ ان کی وزارت اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔ اب تک جیوفینسگ اور نادرا کے ریکارڈز کے ذریعے 24 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

عائشہ کون ہیں؟

عائشہ اکرم بیگ کافی عرصے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور یو ٹیوب پر متحرک ہیں۔ ان کی مختلف ویڈیوز بھی ان کے ذاتی اور ٹک ٹاک پارٹنرز کے اکاؤنٹس پر موجود ہیں۔

ان کا تعلق شاہدرہ کے علاقے سے ہے اور وہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) لاہور میں سٹاف نرس ہیں۔ ہسپتال کے حکام کے مطابق انہیں کچھ عرصہ پہلے ایمرجنسی وارڈ میں ویڈیو بنا کر ٹک ٹاک پر لگانے کے باعث شوکاز نوٹس بھی جاری ہو چکا ہے، جبکہ ہسپتال کو ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی خبر بھی میڈیا سے ہوئی۔

عائشہ کے بھائی صدام حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عائشہ ہسپتال کے ہاسٹل میں رہتی ہیں اور ہفتہ وار گھر آتی ہیں۔ ان کے بقول یوم آزدی کے دن عائشہ گھر آ رہی تھیں کہ راستے میں آنے والے گریٹر اقبال پارک پر ٹک ٹاک بنانے رک گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدام حسین نے کہا: ’پولیس نے شام کو ساڑھے سات بجے کے قریب فون کر کے بتایا کہ عائشہ کا جھگڑا ہوگیا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسےکئی لوگوں نے ہراساں کیا اور کپڑے پھاڑے ہیں۔ ہم درخواست دے کر واپس آگئے۔‘

صدام کے بقول عائشہ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اس لیے وہ گھر کی بجائے پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔

پی آئی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ثاقب شفیع نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا عائشہ کے ساتھ ہونے والے واقعے کی خبر انہیں میڈیا سے ملی۔

ان کے بقول عملے کی نجی زندگی میں مصروفیات جیسے سوشل میڈیا کے استعمال کا ادارے سے کوئی لینا دینا نہیں، تاہم انہوں نے یہ بتایا کہ عائشہ کو ایمرجنسی وارڈ میں ٹک ٹاک بنانے پر شو کاز نوٹس بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے کہا: ’بات یہ نہیں کہ ٹک ٹاکر نرس تھی یا نہیں۔ قابل توجہ یہ پہلو ہے کہ کیا ہمارے ہاں خواتین کو تحفظ حاصل ہے یا نہیں؟ جس طرح اس بچی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہے اور ہجوم حملہ آور ہوا کیا اس کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں؟‘

انہوں نے کہا: ’اس واقعے پر ہمیں معاشرے میں پھیلتی بے حسی کا بھی احاطہ کرنا لازمی ہے۔‘

پولیس کارروائی

واقعے کی سب سے پہلےخبر دینے والے صحافی ملک عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں 15اگست کو ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر کو ہجوم کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا تھا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی چل رہی تھی۔

ان کے مطابق خبر چلنے کے بعد 17اگست کو پولیس نے مقدمہ درج کیا اور سوشل میڈیا پر جب ویڈیوز وائرل ہوئیں تب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا اور اب اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات جاری ہیں۔

ترجمان آئی جی آفس علی بخاری کے مطابق پولیس نے اب تک سو سے زائد افراد کو ویڈیوز کی مدد سے نادرا کی شناخت کے بعد حراست میں لے کر چھان بین کی گئی ہے اور تفتیش کے بعد 20 کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے لیے آئی جی پنجاب نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ہر پہلو سے اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔ متاثرہ خاتون کا طبی معائنہ بھی کرایا گیا ہے جس میں تشدد یا جسم پر نشان  ثابت نہیں ہوئے تاہم گھٹن اور گھبراہٹ وغیرہ کی نشاندہی ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا ردعمل

کئی دن گزر جانے پر اب بھی سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بحث جاری ہے، جہاں زیادہ تر لوگ اس واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں وہیں کچھ صارفین ان کی مختلف پرانی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جن سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ واقعہ ممکنہ طور پر خود ساختہ ہے۔ لیکن بیشتر صارفین نے خاتون سے ہونے والی ہراسانی کو قابل مذمت قرار دیا اور رائے دی کہ ٹک ٹاک بنانا کوئی جرم نہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے عائشہ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین