نہ فلائنگ کس دی اور نہ ہی بھارتی جھنڈا تھاما: ٹک ٹاکر عائشہ اکرم

ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ ’جو میری آواز بنے ہیں وہ پاکستانی مرد میرے بھائی ہیں، میرے محافظ ہیں کیونکہ میں نے سچ کا ساتھ دینے کے لیے آواز بلند کی ہے۔‘

لاہور میں مینار پاکستان پر 400 افراد کی جانب سے ہراساں کی جانے والی یوٹیوبر عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ جو لوگ ان کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا رہے وہ اسے بند کر دیں کیونکہ واقعے کے وقت ’نہ تو انہوں کسی کو فلائنگ کس دی اور نہ ہی بھارت کا جھنڈا پکڑا ہوا تھا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں عائشہ اکرم نے پاکستان کے ان مردوں اور خواتین کا بھی شکریہ ادا کیا جو ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا رہے ہیں اور ان کی ہمایت کر رہے ہیں۔

ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کا کہنا تھا کہ ’جو میری آواز بنے ہیں وہ پاکستانی مرد میرے بھائی ہیں، میرے محافظ ہیں کیونکہ میں نے سچ کا ساتھ دینے کے لیے آواز بلند کی ہے۔‘

پولیس کی تفتیش کے بارے میں ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کی تفتیش سے مطمعین ہیں اور وہ پولیس کی کارکردگی کو سراہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’پولیس کی وجہ سے میں یہاں موجود ہوں، پولیس نے ہی مجھے بچایا ہے ورنہ میں تو جینے کی امید کھو چکی تھی خاص طور پر ڈولفن فورس نے۔ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں شاید اسی طرح پاکستان میں درندگی ختم ہو سکے۔‘

 

اس سے قبل 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں مینار پاکستان کے نیچے ہراسانی کے واقعے کے 40 ملزمان کو عدالت نے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ عدالتی حکم پر ملزمان کی شناختی پریڈ کی جائے گی اور جن کو متاثرہ خاتون ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نے شناخت کیا انہیں قانونی طور پر سزا مل سکتی ہے۔

پولیس نے 40 ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا اور شناختی پریڈ کے لیے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کر لی ہے۔

ملزمان کو عدالت لاتے وقت ان کہ چہرے سفید تھیلوں سے چھپائے گئے تھے جن میں ہوا کے گزر کے لیے آنکھوں اور ناک کے سامنے سوراخ کیے گئے تھے۔

پیشی کے موقع پر ملزمان نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے میں ملوث نہیں پولیس نے بلا جواز گرفتار کیا ہے۔ ملزمان کے مطابق وہ پارک میں تفریح کے لیے گئے تھے اور لڑکی کو ٹک ٹاک بناتے دیکھ کر وہاں ہجوم لگا جس میں وہ بھی موجود تھے۔ ملزمان کا موقف ہے کہ پولیس نے ویڈیو میں موجودگی دیکھ کر پکڑ لیا جس لڑکی کی وجہ سے لوگ جمع ہوئے اسے بھی گرفتار کیاجائے۔

جبکہ پولیس نے موقف اختیار کیاکہ ٹک ٹاکر خاتون عائشہ اکرم سے 14اگست کی شام گریٹر اقبال پارک میں ہونے والی دست درازی اور اجتماعی ہراسانی میں ملوث ملزمان کو ویڈیوز کی مدد سے حراست میں لیا گیا ہے۔

عدالتی کارروائی

ضلع کچہری لاہور میں ٹک ٹاکر عائشہ سے دست درازی کرنے والے 40  ملزمان کو  جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیاگیا پولیس کے مطابق اس واقعہ سے نہ صرف متاثرہ خاتون بلکہ ویڈیو وائرل ہونے سے کئی خواتین خوفزدہ ہوئی ہیں۔ جائے وقوعہ سے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ ویڈیوز کی مدد سے نادرا کے زریعے شناخت کی گئی اور ایڈریس حاصل کیےگئے۔

پولیس نے بتایاکہ تفتیشی ٹیم نے لڑکی کے کپڑے بھی قبضے میں لے لیے اور میڈیکل رپورٹ بھی حاصل کرلی گئی ہےاس کیس میں تمام قانونی پہلووں سے کارروائی کو مکمل کیا جا رہا ہے۔

ملزمان کا تعلق لاہور اور شیخوپورہ کے مختلف علاقوں سے ہے بعض ملزمان کے والدین نے عدالت میں موقف دیا گیا کہ ان کے بچے جرائم پیشہ نہیں 14 اگست منانے کے لیے پارک میں گئے تھے اس پہلے بھی یوم آزادی منانےجاتے تھے لیکن ان کی وہاں موجودگی کے باعث پولیس نے گرفتار کیا بعض لڑکے فیکٹریز میں کام کر کے گھر کا خرچا اٹھاتے ہیں۔

والدین نے درخواست کی ہمارے بچوں کو انصاف دیا جائے ہلڑ بازی کے ایک واقعہ میں ملوث کر کے بلاوجہ ان کی زندگیاں خراب نہ کی جائیں۔

عدالتی حکم پر ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا جہاں متاثرہ خاتون سے ان کی شناخت کرائی جائے گی۔

پراسیکیوٹر فاروق حسنات کے مطابق تفتیشی ٹیم کو خصوصی ہدایات کر دی گئی ہے کہ متاثرہ لڑکی کے پھٹے ہوئے کپڑے مل چکے ہیں واقعہ کی تمام ویڈیوز اور سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج جائے وقوعہ کا نقشہ حاصل کر لیاہے۔

ان کے مطابق ’متاثرہ لڑکی کے ساتھ آنے والے لڑکوں سے بھی تفتیش جاری ہے اور ان کے بیانات بھی ریکارڈ کیےجا رہے ہیں۔ تاکہ کسی بے گناہ کو بغیر جرم سزا نہ مل جائے یہ کیس کافی پھیلا ہوا ہے تاہم ہر پہلو سے تفتیش جاری ہےتاکہ مکمل حقائق سامنے آسکیں۔‘

کیس میں مزید قانونی کارروائی کیا ہوسکتی ہے؟

فوجداری مقدمات کے سینئر قانون دان فیصل اقبال باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس نےاس واقعہ میں 354اے، 382, 147,149شامل کی ہیں۔

ان کے مطابق 354اے دفعہ کسی خاتون کو مجرمانہ طور پر کسی عوامی مقام پر ننگاکرنا اور اس کے کپڑے پھاڑنے کی ہے جس کے تحت عمر قید، سزائے موت اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جرم کا ثابت ہونا لازمی ہے اور ٹرائل میں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ملزموں نے سوچ سمجھ کر مجرمانہ طور پر ایسا کیا ہو۔

اس کے ساتھ دفعہ 382,147,149میں کسی خاتون سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور اسے دانستہ ہراساں کرنے پر لگائی جاتی ہیں جس میں دو سال تک قید و جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔

فیصل باجوہ کے بقول: ’سب سے پہلے دوران ٹرائل پولیس اور مدعیہ کو یہ ثابت کرنا لازمی ہے کہ واقعہ ملزمان کی جانب سے دانستہ اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت خاتون کو برہنہ کرنے یا ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لیےکیاگیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب یہ پہلو بھی زیر بحث آئے گا کہ لڑکی جائے وقوعہ پر اپنی مرضی سے اور ساتھیوں سمیت آئی اور انہوں نے وہاں ٹک ٹاک ویڈیوز بنائیں وہ کس قسم کی ویڈیوز بنائی جارہی تھیں۔

فیصل نے کہا کہ اس واقعہ میں کافی پیچیدگیاں دیکھنے میں آرہی ہیں جنہیں دوران عدالتی ٹرائل مختلف زاویوں سے دیکھاجائے گا لہذا لگتا یہ ہے کہ دفعہ 354اے پولیس اور مدعیہ کے لیے ثابت کرنا کافی مشکل ہوگا لہذا ملزموں کا سخت سزاسے بچنا آسان دکھائی دے رہاہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ شناخت پریڈ میں متاثرہ خاتون نے اگر تمام ملزمان کی نشاندہی کر دی تو کیا سب کو سزا مل سکتی ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ بالکل اگر متاثرہ خاتون نے نشاندہی کی کہ یہ ملوث ہے اور اس نے کپڑے پھاڑے دھکے دیے یا بال نوچے تو یقینی طور پر وہ ملزم زیادہ سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔

اگر ملزمان کی جانب سے وکیل صفائی نے ان کی بے گناہی کے لیے ایسے نکات اٹھائے جن میں ملزموں کی طرف سے واقعہ میں لاشعوری طور پر موجودگی یا شور شرابا مقصود ہوا یا کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو جو خاتون الزام لگا رہی ہیں تو ان کو ریلیف بھی مل سکتا ہے۔ جیسا کہ میڈیا پر اس واقعہ کے پری پلان ہونے کا بھی پہلو سامنے آرہاہے۔

اس مقدمہ میں ایک ملزم شہروز سعید نے پہلے ہی 3ستمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری کرالی ہے۔

فیصل باجوہ نے کہاکہ دو تین ماہ کے بعد دوران ٹرائل ملزمان کے بے گناہ ہونے پر بری یا ضمانت بھی منظور ہوسکتی ہے۔

واضع رہے کہ نجی ٹی وی کے ایک انٹرویو میں متاثرہ خاتون عائشہ اکرم کہ چکی ہیں کہ انہیں واقعہ میں ملوث صرف تین یا چار افراد کی شکلیں یاد ہیں جو کپڑے پھاڑ رہےتھے اور بال نوچ رہے تھے۔

بزرگ گرفتار

تازہ اطلاعات کے مطابق اسی مقدمے میں لاہور پولیس نے ٹک ٹاکر سے دست درازی کے الزام میں ایک بزرگ کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ 71 سالہ بزرگ بھی منچلوں کی فہرست میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ وزیر خان نامی بزرگ کو سی آئی اے پولیس نے شاہدرہ سے حراست میں لیا ہے۔

گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا مظاہرین نے ملزمان کو سخت سزا دلوانے کا مطالبہ کیا اور خواتین کی سکیورٹی کے انتظامات کو ناگزیر قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین