خیبرپختونخوا کابینہ میں ردوبدل کی سرگوشیاں: بارہا وزرا بدلنے کا فائدہ؟

پی ٹی آئی کو کابینہ میں کثرت سے ردوبدل کرنے والی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے، جس کو اپوزیشن، میڈیا اور عوامی حلقوں سے وقتاً فوقتاً تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

جب خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات کامران بنگش سے انڈپینڈنٹ اردو نے کابینہ میں بار بار ردوبدل کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ردوبدل ایک سیاسی ضرورت ہے جس میں ٹیم کی صلاحیتوں کو صحیح جگہ بروئے کار لانا مقصود ہوتا ہے (خیبر پختونخوا حکومت)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پچھلے تین سالوں میں وفاق اور خیبر پختونخوا کابینہ میں متعدد بار ردوبدل کیا جاچکا ہے، جب کہ اب خیبر پختونخوا میں ساتویں ردوبدل کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اسی سبب پی ٹی آئی کو کابینہ میں کثرت سے ردوبدل کرنے والی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے، جس کو اپوزیشن، میڈیا اور عوامی حلقوں سے وقتاً فوقتاً تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

سینیئر سیاستدان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی پر الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف میں زیادہ تر وزرا کی برطرفیاں اور ردوبدل اندرونی اکھاڑ پچھاڑ اور لابنگ کے تحت ہو رہی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ اس وقت مزید دو  وزرا کو  نکالے جانے کے اشارے دیے جارہے ہیں جن میں ایک کا تعلق سوات سے ہے، جب کہ دوسرے کے متعلق بتانے سے انہوں نے گریز کیا۔

نگہت اورکزئی نے بتایا کہ ہشام انعام اللہ خان اور قلندر لودھی کو  نکالنے کے بعد ’مزید دو وزرا کو نکال کر چار وزرا کے لیے جگہ بنائی جارہی ہے جس میں ایک قلمدان سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بھائی یا بیٹے کو سونپنے کا امکان ہے۔‘

انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ پی ٹی آئی کے اب تک جتنے وزرا یہ کہہ کر مستعفی ہوئے کہ وہ اپنے حلقے پر توجہ دینا چاہتے ہیں، کو دراصل استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔

نگہت اورکزئی نے کابینہ میں کثرت سے ردو بدل پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسا کرنے سے نہ صرف ایک وزارت کا تمام انتظام اوپر سے نیچے تک درہم برہم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا نقصان عوام کو بھی پہنچتا ہے۔

’ردوبدل اور برطرفیوں کے اس خوف کی وجہ سے کئی وزرا اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے ہیں۔ وہ قوانین میں دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ ان کو یہ احساس رہتا ہے کہ ہم کو اس وزارت سے چلے جانا ہے۔ میرے کئی اہم بِل اسی وجہ سے التوا میں پڑے ہیں۔‘

جب خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات کامران بنگش سے انڈپینڈنٹ اردو نے کابینہ میں بار بار ردوبدل کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ردوبدل ایک سیاسی ضرورت ہے جس میں ٹیم کی صلاحیتوں کو صحیح جگہ بروئے کار لانا مقصود ہوتا ہے۔

انہوں نے لابنگ اور وزرا کو ذاتی مفادات و خواہشات کی وجہ سے نکالنے یا اہم قلمدان سونپنے کو محض قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر لابنگ ہی معیار ہوتا تو انہیں تین اہم وزارتیں نہ ملتیں۔

’میں ورکر کلاس سے آیا ہوں۔ میری کوئی لابنگ نہ ہونے کے باوجود مجھے تعلیم، بلدیاتی حکومت اور  اطلاعات کی وزارت سونپی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں کسی وزیر کی کارکردگی جانچنے کے لیے پارٹی کا ایک اندرونی میکانزم، تنظیمیں اور گڈ گورننس ٹیم موجود ہے، جو تواتر کے ساتھ سینیئر لیڈرشپ کو وزرا کی رپورٹ بھیجتے رہتے ہیں۔

’کسی وزیر کو نیا قلمدان سونپ کر اس کو  45 سے 60 دن پارٹی منشور کے مطابق وزارت چلانے اور دیگر معاملات کو سمجھنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اس مدت کے بعد اس سے کارکردگی کی جواب طلبی ہوتی ہے۔‘

کامران بنگش نے کہا کہ ایک وزیر کو اتنا وقت ضرور دیا جاتا ہے کہ جس میں وہ اپنی کارکردگی دکھا سکے۔

’ہماری جماعت میں ایک مالی سال میں ایک وزیر کی تمام تر کارکردگی کی رپورٹ حاصل کی جاتا ہے کہ اس کو جو  ٹاسک دیا تھا وہ اس نے پورا کیا کہ نہیں اور  آیا وہ متعلقہ شعبے میں مہارت و قابلیت رکھتا ہے یا نہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں: ’ہماری سیاسی جماعت کے اندرونی میکانزم کے مطابق ایک وزیر کے بارے میں یہاں تک معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ حلقے میں کتنا وقت گزارتا ہے، اس کی پبلک ڈیلنگ کیسی ہے، دفتر میں کتنا وقت گزارتا ہے اور میڈیا کو کتنا ٹائم دیتا ہے۔‘

کابینہ میں ردو بدل کی ضرورت و اہمیت

وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ردوبدل، وزرا کی برطرفی، کسی وزیر کی رکنیت بحال رکھنا یاختم کرنا یہ سب وزیر اعظم اور  وزیر اعلیٰ کے اختیارات میں شامل ہے۔ تاہم پاکستانی سیاست میں کوئی کلیہ اور نہ ہی رہنمائی کے لیے کوئی ایسا کتابچہ موجود ہے جو متذکرہ اختیارات کے استعمال کے لیے وقت کا تعین کر سکیں۔

پاکستان کی طرح برطانوی پارلیمان میں بھی کابینہ میں کثرت سے ردوبدل ان کی سیاسی زندگی کا خاصہ بن چکا ہے۔

حال ہی میں اس معاملے پر برطانوی پارلیمان کی سرکاری  ویب سائٹ پر  ایک تنقیدی و تجزیاتی رپورٹ بھی آن لائن شائع کی گئی، جس کے مطابق ’ری شفلنگ‘ سیاست کا ایک جزو ہے، تاہم کابینہ میں ردوبدل کے لیے کسی ٹھوس وجہ کا ہونا ضروری ہے۔

رپورٹ کے مطابق، کابینہ میں ردوبدل عوامی امنگوں یا سیاسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہونا چاہیے۔

برطانوی کابینہ کے سیکرٹری سر جیریمی ہیووڈ کہتے ہیں کہ بعض اوقات کابینہ میں ردو بدل ایمرجنسی کی صورت میں ہوتا ہے جیسے کہ کسی کی موت، بیماری یا اچانک استعفیٰ۔

جب کہ سابق برطانوی کیبینٹ سیکرٹری لارڈ ٹرنبل کے مطابق، بعض اوقات حکومتی پالیسی میں تبدیلی کے لیے بھی ردو بدل کیا جاتا ہے لیکن ایسا کم  ہی ہوتا ہے۔

برطانوی رکن پارلیمان بین براڈشا کہتے ہیں کہ ایک اہم وجہ ردوبدل کی وزیر اعظم کو یہ موقع دینا ہوتا ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ ان کے پاس بہترین ٹیم ہے۔

بین براڈشا کے مطابق، بعض مرتبہ ایک اچھی ٹیم پانے کے لیے وزیر اعظم کو کابینہ میں کئی کئی بار  ردوبدل کی ضرورت پڑتی ہے۔

وزرا کی ذمہ داریاں تبدیل کرنے اور انہیں ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت دینے کے مقاصد و وجوہات کے حوالے سے برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم سر جان میجر کہتے ہیں کہ کابینہ میں ردوبدل کی ایک وجہ پارلیمنٹ کے قابل اراکین کو ان وزرا کی جگہ لانا مقصود ہوتا ہے جن کی کارکردگی کمزور  یا اچھی نہیں ہوتی۔

سر جان کے مطابق: ’دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ کے ان محنتی نوجوانوں کو تجربے کا موقع دیا جائے جن میں کابینہ تک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘

کابینہ میں ردوبدل کے اثرات

پاکستان کی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں بار بار ردوبدل پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا آسان ہے کہ ایک وزیر کو قلمدان سونپ دینے کے بعد اگر وہ اس میں مہارت یا سمجھ بوجھ نہ رکھتا ہو تو سیاسی جماعت، ملک اور عوام کے مفاد کی خاطر اس کو ہٹا کر دوسرا قلمدان اس کی قابلیت کے مطابق سونپ دیا جائے۔

تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ اسی بنیاد پر نکالے گئے ایک وزیر کو کچھ مدت بعد دوبارہ وہی وزارت کیوں دی جاتی ہے؟

پاکستان اور باالخصوص خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی عقیل یوسفزئی نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بار بار وزرا کی تبدیلی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا میں پرکھنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک وزیر دو سال میں کچھ ڈیلیور نہیں کرتا تو اس کو دوسری وزارت کی باگ ڈور کیوں تھمائی جاتی ہے۔

’اس طرح سے آپ نہ صرف ایک وزارت کو سٹیک پر لگاتے ہیں بلکہ دوسری میں بھی تباہی پھیلاتے ہیں، جس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے۔ ہر وزیر کے کام کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے اور اس کو نئی وزارت کو سمجھنے میں بہت وقت لگتا ہے۔‘

عقیل یوسفزئی نے الزام عائد کیا کہ ’دراصل خیبر پختونخوا اسمبلی میں فیصلوں پر لابنگ کا اثر ہے جس کے تحت ہر گروپ اپنی فیملی کو آگے لانے میں کوشاں ہے، جو  وزیر اعظم عمران خان کے اس نظریے کے خلاف ہے جس کے تحت عوام سے روایتی سیاست کے خاتمے کے وعدے کیے گئے تھے۔‘

برطانوی پارلیمنٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر ’کابینہ میں ردوبدل اور اس کے اثرات‘ پر لکھی گئی ایک رپورٹ میں سابق برطانوی کیبنٹ سیکرٹری لارڈ ٹرن بل کہتے ہیں کہ وزرا کی بار بار تبدیلی سے ایک وزیر اور سول سرونٹ کا تعلق بھی عدم توازن کا شکار ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق: ’کابینہ میں ردو بدل کا حکومت پر بہت اثر پڑتا ہے، حتیٰ کہ ایک بہت قابل وزیر کو بھی اپنی وزارت سے مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے، لہذا اس کو اتنی مہلت دینی چاہیے کہ وہ اپنی وزارت میں کچھ نیا اور بہتر کام کر دکھائے۔ اس کی کم سے کم مدت دو سال ہو سکتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست