بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی غیرمعمولی کامیابی کے بعد کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی سامنے آتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں مسلسل دوسری مرتبہ شکست کھانے والی انڈین نیشنل کانگریس کا حال آخر پاکستان پیپلزپارٹی جیسا کیوں ہوا؟ اور کیا پیپلزپارٹی اور اصلی مسلم لیگ کی طرح کانگریس بھی اپنی طبعی عمر پوری کرچکی ہے؟
مسلم لیگ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد شکست وریخت کا شکارہوگئی تھی اور حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اس کے سرکاری دھڑے تشکیل دیناشروع کردیئے تھے، لیکن پیپلزپارٹی ایک طویل عرصہ تک اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہی۔
گزشتہ انتخابات کے بعد اس کے مستقبل کے بارے میں بھی بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ وہ کسی ایک صوبے کی جماعت بن گئی ہے یا اس صوبے میں بھی اس کے لیے اپنا وجود برقراررکھنا اب آسان نہیں ہوگا۔ یہ ویسے ہی سوالات ہیں جیسے بھارت میں اب کانگریس کے بارے میں کیے جارہے ہیں۔
اگر کانگریس کے ماضی پر نظرڈالیں تو ہمیں وہ طویل عرصے تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ کانگریس اور پیپلزپارٹی میں قدر مشترک یہ رہی کہ دونوں نے موروثی سیاست کو آگے بڑھایا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں سیاست پر خاندانوں کی اجارہ داری پر خوب تنقید بھی کی گئی لیکن یہ اجارہ داری طویل عرصہ قائم رہی۔ پاکستان میں اقتدار پر پیپلزپارٹی کے تسلسل کو ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے آگے بڑھایا اور بھارتی کانگریس میں گاندھی خاندان کا تسلسل محترمہ اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی کی صورت میں قائم رہا۔
کم وبیش یہی دن تھے جب راجیو گاندھی کو آج سے 28برس قبل قتل کردیاگیاتھا۔ مئی کی 21تاریخ تھی اور سال 1991 جب راجیو گاندھی ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے لیے تامل ناڈوپہنچے۔ وہ انتخابی جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گاڑی سے اترے ہی تھے کہ ایک تامل خاتون نے انہیں گلدستہ پیش کرتے ہوئے خود کو دھماکے سے اڑادیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خودکش دھماکے ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ بعد ازاں پاکستان میں بے نظیر بھٹو بھی ایسے ہی ایک دھماکے کا شکارہوئیں۔ بھارت میں راجیو گاندھی کا قتل کانگریس کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔
راجیو گاندھی کے بعد سونیاگاندھی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور انتخابات کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگریس نے کامیابی حاصل کی جس کے بعد نرسیماراﺅ وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ نرسیماراﺅ کے بعد 1996ءمیںبی جے پی پہلی مرتبہ برسراقتدارآئی اوراٹل بہاری واجپائی نے وزیراعظم کی حیثیت سے منصب سنبھال لیا۔ واجپائی دوسری مرتبہ 1999ءمیں وزیراعظم کے منصب پر فائزہوئے۔
ان کے بعد کانگریس کے منموہن سنگھ نے 2004 اور 2009ءمیں بالترتیب دومرتبہ وزیراعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ پھر2014ءمیں بی جے پی دوسری مرتبہ نئے چہرے کے ساتھ برسراقتدارآئی اوریہ چہرہ اٹل بہاری واجپائی سے یکسر مختلف تھا۔ یہ چہرہ نریندرمودی کاتھا ۔ پاکستان کو بی جے پی کا سابقہ تجربہ واجپائی جیسے سٹیٹس مین کے ساتھ ہوا تھا جس نے تمام تر مخالفتوں کو بالائے طاق رکھ کر امن کا پرچم بلند کیااور وزیراعظم نوازشریف کی دعوت پر مینارپاکستان پر حاضری دینے کے لیے پاکستان آگئے۔
جنگی جنون کوہوا دینے والے مودی اس وقت کہاں تھے یہ تو کسی کو یاد نہیں لیکن پاکستان میں جنگی جنون کوہوا دینے کے لیے مولانا مودودی کے حامی بہرحال موجود تھے اور واجپائی کی پاکستان آمد پر انہوں نے بھرپورمزاحمت بھی کی تھی۔
پہلے سوال کی طرح ان انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والا دوسرا سوال بھی بہت اہم ہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مودی کی کامیابی کے بعد اب بی جے پی کے ساتھ مل کر ہم کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کروالیں گے۔ ممکن ہے کہ پہلے سوال کی طرح آپ کو یہ سوال بھی بے معنی نظرآئے لیکن یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ نریندرمودی کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات میں پیش رفت کی ہمیں نہیں خود وزیراعظم عمران خان کو توقع ہے۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار بھارتی انتخابات سے قبل بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ لیکن ان تمام سوالات کو نظراندازکردیں۔ جو سوال ہمارے ذہن میں گردش کررہاہے وہ یہ ہے کہ نریندر مودی جیسی بظاہر غیرمتاثر کن شخصیت کے پاس ایسی کون سی گیڈرسنگھی ہے کہ وہ اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوکر سامنے آ ئے ہیں۔
یہ وہی سوال ہے جو امریکہ میں ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سامنے آیاتھا۔ ٹرمپ نے تو خیر غیرمتوقع کامیابی حاصل کی لیکن مودی کی فتح تو یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ ٹرمپ اور مودی کی بعض حرکتیں ہمارے نزدیک تو احمقانہ ضرورہوتی ہیں لیکن ان کی کامیابی میں ان کی انہی حرکتوں اور ان کی ”کرشماتی شخصیت“ کا عمل دخل قراردیاجارہاہے۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات شخصیات کو کرشمانی بنانے میں ا نتہا پسندی کا بہت کردار ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ نفرت کی بنیاد پر کی جانے والی محبت کا اثر خواہ دیرپا نہ ہو لیکن یہ محبت ایک مرتبہ تو سب کو حیران کردیتی ہے۔ ٹرمپ کی طرح مودی نے بھی مسلمانوں کے ساتھ نفرت کو ہی جیت کے لیے سیڑھی بنایا اورلوگوں نے اسی نفرت کی بنیاد پران کے سر پر پہلے سے بڑا تاج سجادیا۔
نفرت کی بنیاد پر برسراقتدارآنے والے نریندرمودی جو سابقہ دور حکومت میں تاج محل کوبھی مسلمانوں کی نشانی قراردے چکے اور رام مندر کی دوبارہ تعمیر کا دعوی بھی کرچکے اب برسراقتدارآنے کے بعد معاملات کو کس نہج پرلے جائیں گے اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا لیکن یہ بات طے ہے کہ نریندر کی کامیابی اس خطے میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی نئی لہر کوجنم دے گی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مودودی کے حامیوں کی بڑی تعداد بھارت دشمنی کوہی پاکستان کی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ ہم سب کو آنے والے دنوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا کہ ذرا سی لغزش بھی اس خطے کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔