پاکستان کو اقوام متحدہ میں اپنے نوجوان مندوبین کیوں بھیجنے چاہئیں؟

کراچی کے میران خلصائی کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک اقوام متحدہ کے ’نوجوان مندوبین پروگرام‘ میں دو سے سات نوجوان بھیجتے ہیں، پاکستان نے آج تک کوئی نوجوان مندوب نہیں بھیجا۔ پی آر او برائے نوجوانان کے مطابق ’مندوبین بھیج کر پاکستانی سیاست کو کیا فائدہ ہے؟‘

نیو یارک میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز کی عمارت  (ا ےایف پی)

کراچی سے تعلق رکھنے والے انیس سالہ محمد میران خلصائی نے 16 اگست 2021 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوان عثمان ڈار کو بذریعہ ای میل ایک خط بھیجا جس کا ابھی تک نہ انہیں کوئی جواب ملا اور نہ ہی وزارت امور ہائے نوجواناں کے ارکان کو اس خط کا کوئی علم ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے اس خط میں میران خلصائی نے اقوام متحدہ میں نوجوان مندوبین بھیجنے کے معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہر سال 15 سے زائد ممالک اقوام متحدہ کے نوجوان مندوبین پروگرام میں اپنے ملک سے دو سے سات نوجوانوں کو بھیجتے ہیں جب کہ پاکستان نے آج تک اقوام متحدہ میں اپنا کوئی نوجوان مندوب نہیں بھیجا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی نوجوان نسل کی تعداد 60 فیصد سے زائد ہے۔ پاکستان اس پروگرام سے کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اسے اپنی بین الاقوامی اور امور نوجوانان پالیسی کا حصہ بنائے۔‘

میران خلصائی لندن میں برطانیہ کی ایس او اے ایس یونیورسٹی سے سیاست اور بین الاقوامی امور میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ میں نوجوان مندوبین بھیجنے کے معاملے پر نہ صرف پاکستان کی وزارت امور نوجوانان بلکہ وزارت خارجہ اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ بھی کیا ہے تاہم ابھی تک انہیں کسی کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

میران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اقوام متحدہ کے نوجوان مندوبین کا بنیادی مقصد ہے جوانوں کو آگے آنے کے لیے مواقع فراہم کرنا، انہیں سیاست میں شامل کرنا اور نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان یوتھ کونسل ہونے کے باوجود بھی کتنے نوجوان ہیں جنہیں ملک کی قانون سازی اور مشاورت میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا تو مشیر برائے امور نوجوانان 47 سال کا ہے۔ دنیا یہ سنے گی تو ہنسے گی ہم پر۔ جب کرونا وبا کے باعث پاکستان میں کیمبرج اور میٹرک کے امتحانات بحران پیدا ہوا تو کیا شفقت محمود کے ساتھ کوئی نوجوان مشیر موجود تھے جو نوجوانوں کی آواز ان تک پہنچا پاتے؟ مسئلہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ان سے عمر میں کئی گنا بڑے ہیں اور ایک بالکل مختلف نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمران خان اگر واقعی نوجوانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کو یقینی بنائیں اور اقوام متحدہ میں پاکستانی نوجوان مندوبین کو بھیجیں۔‘

اقوام متحدہ میں نوجوان مندوب کون ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے؟

اقوم متحدہ کی نوجوان مندوبین کے حوالے سے شائع ہونے والی 61 صفحات پر مشتمل گائیڈ کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد کا شمار یوتھ میں کیا جاتا ہے۔

عام طور پر یوتھ ڈیلیگیٹس کا انتخاب ان کے ممالک کی جانب سے انتہائی سخت مراحل سے گزرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ ریاست انہیں اقوام متحدہ میں ایک یا ایک سے زیادہ بین الاقوامی سرکاری اجلاسوں میں بطور ملکی نمائندگان شرکت کرنے کے لیے منتخب کرتی ہے۔

نوجوان مندوبین کے انتخابی عمل، مینڈیٹ اور ذمہ داریوں کا تعین بھی ان کے ممالک کی جانب سے ہی کیا جاتا ہے۔

ہر نوجوان مندوب ایک سے دو سال کے عرصے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے جب کہ کچھ ممالک صرف ایڈہاک بنیادوں پر ہی اپنے نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں جو مستقل نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چند بین الاقوامی ایونٹس میں اپنے ملک کی نماندگی کرتے ہیں۔

نوجوانوں کو اس سے موقع ملتا ہے کہ وہ نہ صرف بین الاقوامی بلکہ قومی سطح پر بھی ملک کے اہم مسائل پر مشاورت کریں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر نوجوانوں کے ساتھ پالیسی ترجیحات پر اتفاق رائے پیدا کریں اور انہیں اپنی حکومت کے تعاون سے قانون سازی کے عمل میں شامل کریں۔

کراچی میں اے لیولز کے طالب عام محمد احمد میر کے مطابق بطور نوجوان مندوب، اقوام متحدہ میں جانا نہ صرف اس نوجوان کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ پاکستان کے لیے بھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب آپ کم عمر سے اقوام متحدہ کا حصہ ہوتے ہیں تو آپ میں نہ صرف اعتماد جلد قائم ہوتا ہے بلکہ آپ اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں کہ اپنے ملک کی نمائندگی بہتر طریقے سے کس طرح کرنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ دنیا بھر سے ایسے روابط قائم کرلیتے ہیں جو بعد میں آپ اپنے ملکی مفاد میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں جس کا فائدہ ملکی معیشت کو ہوتا ہے اور یہ اس وقت پاکستان کی ایک بڑی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسے حوالے سے امور نوجوان کے پی آر او صالح محمد کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نوجوانوں کی ترقی کے لیے پہلے سے ہی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان حکومت نے نیشنل یوتھ کونسل قائم کیا ہے جس کا مقصد ہے پاکستان بھر سے ذہین اور باشور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا اور ملکی مفاد میں کام کرنا۔

انہوں نے بتایا کہ ’نیشل یوتھ کونسل میں پورے ملک سے 33 ممبران شامل کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اس کے پیٹرن ان چیف ہیں اور عثمان ڈار اس کے چیئرمین ہیں۔ یہ ممبران 10 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس کونسل کا کام ہے نیشل یوتھ ڈویلپمنٹ فریم ورک کے تحت جاری کی گئی ہدایات کے مطابق نوجوانوں کو قانون سازی اور اس کے نفاذ کے عمل میں شامل کرنا۔ اس کے علاوہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لے کر اسے بہتر بنانے میں مدد کرنا۔‘

تاہم اقوام متحدہ میں نوجوان مندوبین بھیجنے کے معاملے پر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’اقوام متحدہ میں نوجوان مندوبین بھیج کر پاکستانی سیاست کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ اگر اقوام متحدہ یا کوئی اور بین الاقوامی ادارہ پاکستان سے نوجوانوں کی نومینیشنز مانگتا ہے تو ہم خوشی سے نومینیشنز آگے بھیجیں گے۔ ہر کسی کی خواہش ہے کہ وہ اقوام متحدہ جا کر پاکستان کی نمائندگی کرے مگر یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں نوجوان مندوبین بھیجنے کے معاملے پر مزید جانچ کی ضرورت ہے، صرف تب ہی ہم ان نوجوانوں کی مدد کرسکتے ہیں جو اس معاملے میں حکومت کی مدد چاہ رہے ہیں۔‘

دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق یوتھ ڈیلیگیٹس کا انتخاب یا پھر کسی ملک میں یوتھ ڈیلیگیٹس پروگرام قائم کرنے کا فیصلہ اسی ملک کا ہوتا ہے اور یہ نوجوانوں کے لیے اقوام متحدہ کے امور میں شامل ہونے کا واحد طریقہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل