اے ارض وطن تیرے پلاٹوں کی خیر

ٹھیک ہی کہا خواجہ آصف نے۔ گندم، چاول، چینی اور پُھٹی کی فصل کی جگہ پلاٹوں کی فصل نے لے لی ہے۔ زرخیز زمین پہ کسان کا ہل، ٹریکٹر نہیں بلڈوزر چل رہے ہیں۔

پاکستان کے چوتھے بڑے شہر راولپنڈی کا ایک منظر (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


ہم کنال، پانچ اور دس مرلے کے پلاٹ کاٹنے کے ایسے ماہر ہوگئے ہیں کہ بیچ میں نہر آجائے یا چھوٹی سی پہاڑی، ہم  پلاٹ کا سائز ٹس سے مس نہیں ہونے دیتے۔ نپائی اور کٹنگ پورے حساب سے ہوتی ہے۔

ہماری ہاؤسنگ سوسائٹیاں ایسی یگانہ روزگار ہیں کہ پاکستان تو پاکستان یہاں ناروے میں بھی پلاٹ کی فائلوں کا ذکر خیر سنا۔

چونکہ پاکستان سے ناروے نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت جہلم، گجرات، کھاریاں، چکوال اور ملحقہ علاقوں سے ہے اس لیے یہاں ان پلاٹوں کا ذکر سنا جنہیں ہم پاکستانی سیاسی خبروں کے شور میں بمشکل ہی سن پاتے ہیں۔

اوسلو میں ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے آبائی علاقے تحصیل سرائے عالمگیر کے علاقے چوا کڑیالہ میں ان کی ملکیت میں کچھ زیر کاشت اور کچھ بنجر زمینیں ہیں، جنہیں اب قبضہ گروپ کا سامنا ہے۔

میں اسے مقامی بدمعاشوں کا قبضہ گروپ سمجھی، تفصیلات پوچھی تو کہنے لگے: وہ بڑے بڑے بلڈوزر اور مشینری کے ساتھ آتے ہیں، ان کے پرائیوٹ گارڈز اسلحہ سمیت موجود ہوتے ہیں، پولیس وین بھی ان کے ساتھ دیکھی گئی ہے۔ لگتا ہے اس قبضہ کمپنی نے مقامی بدمعاشوں کو بھی نوکری دے رکھی ہے، بہت سے بدمعاش اب پراپرٹی ڈیلر بھی بن گئے ہیں۔‘

قبضہ کمپنی کا طریقہ واردات سنا تو یہ منظر دیکھا دیکھا سا لگا۔ کراچی کے مشہور ہاؤسنگ پراجیکٹ، مقامی افراد کا احتجاج، حکومت کی پراسرار خاموشی یہ بالکل ویسا ہی انداز ہے۔ جو پوچھا تو پتا چلا قبضہ گروپ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی والے ہیں جو پانچ، پانچ مرلے کے پلاٹ کاٹ رہے ہیں۔

میں نے گوگل میپ کھول لیا کہ دیکھوں تو سہی یہ سرائے عالمگیر کا چوا کڑیالہ ایسی کون سی شاندار لوکیشن ہے۔

یہ ڈسٹرکٹ گجرات میں جی ٹی روڈ سے نزدیکی علاقہ ہے، لوکیشن کی اہمیت مزید یہ ہے کہ جڑواں علاقہ کھاریاں ہے۔

اگلا سوال ذہن یں یہ کلبلایا کہ وہ کون عظیم بلڈر ہیں جنہوں نے چوا کڑیالہ میں سرمایہ کاری کی اور اب وسیع و عریض حویلیوں، بڑے مکانوں اور کھلے صحن میں رہنے والے لوگوں کو پانچ مرلے کے پلاٹ بیچ رہے ہیں۔

تھوڑی ہی تلاش سے پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے بےتاج بادشاہ کا نام نمودار ہوا۔ مگر دلچسپ یہ تھا کہ اب کی بار ٹھیکیداری کی دنیا کا بڑا نام  استعمال کرنے کی بجائے یہ کہنے پہ اکتفا کیا گیا کہ ’فرام دی فیملی آف ۔۔۔۔‘

میں نے بزرگ کو خوش خبری سنائی کہ ان کے علاقے سرائے عالمگیر کے گمنام سے گاوں پر اب فاتح راولپنڈی،گوادر، کراچی اور فاتح لاہور کا ہاتھ ہے، اس بلڈر کمپنی نے وہاں بھی یورپی سٹائل کی سوسائٹیاں بنائی ہیں۔ آپ کے گاوں کی بھی اب قسمت چمکے گی۔

یہ سنتے ہی وہ بزرگ بے ساختہ بولے: ’لیکن بیٹا وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی ہماری ضرورت نہیں، ہماری زمین پر عرصے سے گندم کی فصل اگتی رہی ہے، ہمارے لوگوں کی روٹی اس زمین سے وابستہ ہے۔‘

اپنی زمین کے لیے پریشان ان بزرگ کے سامنے تو میں کیا ہی کہتی مگر مجھے یہاں لکھ لینے دیجیے کہ صرف چوا کڑیالہ ہی نہیں ہم سب پاکستانیوں کی روٹی ایسی زرعی زمین سے اگنے والی گندم کی مرہون منت ہے۔

بزرگ مزید بتا رہے تھے کہ ابھی گذشتہ دنوں وہاں شاملاٹ اراضی اور اس سے متصل زیر کاشت زمین عین اس وقت قبضہ مافیا اور مقامی قبضہ گروہوں کی نذر ہوئی جب اس پر گندم کی فصل تیار کھڑی تھی۔ فصل برباد گئی۔

یہ اوسلو میں اردو زبان کی کتابوں رسائل وغیرہ کی لائبریری میں ہونے والی ایک بیٹھک کی کہانی ہے جہاں پاکستانی کمیونٹی کے متحرک رہنما محمد انور صوفی اور دیگر اس مسئلے پہ سر جوڑے بیٹھے تھے۔

ہم سب اس مسئلے پر بات کر رہے تھے جس پہ معروف صحافی روف کلاسرہ کئی بار لکھ چکے، خود میں اپنے پڑھنے والوں کو بار بار اس نکتے کی جانب متوجہ کرتی رہی ہوں کہ پاکستان کی زرعی اراضی، قابل کاشت اراضی، جنگلات یا دیہی زندگی کو سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا سے ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر دفاع ن لیگی رہنما خواجہ آصف نے ابھی چند دن قبل ٹوئٹر پر فیصلہ سازوں کے سامنے ایک درخواست رکھی۔ انہوں نے لکھا کہ ’سیالکوٹ لاہور موٹروے دنیا کے بہترین باسمتی چاول پیدا کرنے والے علاقوں سے گزرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’دونوں اطراف تاحد نظر ہریالی اور سر سبز کھیت ہیں۔ موٹروے کی وجہ سے زمین بہت قیمتی ہوگئی ہے۔ ارباب اختیار سے درخواست ہے اس زرعی زمین کو ریئل اسٹیٹ مافیا سے بچائیں اور علاقے کا زرعی تشخص محفوظ بنائیں۔‘

ٹھیک ہی کہا خواجہ آصف نے۔ گندم، چاول، چینی اور پُھٹی کی فصل کی جگہ پلاٹوں کی فصل نے لے لی ہے۔ زرخیز زمین پہ کسان کا ہل، ٹریکٹر نہیں بلڈوزر چل رہے ہیں۔ جو زمین کسان کے قدموں کی آہٹ سے ہری بھری ہوجاتی تھی وہاں بلڈرز اور پراپرٹی  ڈیلرز کی مہنگی گاڑیاں دندنا رہی ہیں۔

یہ تحریر یقیناً سیاسی ہماہمی میں غیر مقبول موضوع ہے، لیکن ہمارا ملک جس تیزی سے زراعت ایکسپورٹ کرتے کرتے اب دالیں، چاول، چینی، گندم دیگر ممالک سے منگوانا شروع ہوگیا ہے وہ دن دور نہیں کہ آپ کو یہ مضمون یاد آئے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ