ہم افغانستان میں 20 سالہ جنگ ہار گئے: امریکی جنرل کا اعتراف

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے اس شکست کے کئی عوامل میں سے ایک طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے معاملے پر پاکستان سے موثر انداز میں نہ نمٹنے کو بھی قرار دیا۔

امریکہ کی اعلیٰ فوجی قیادت نے بدھ کو اعتراف کیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں 20 سالہ جنگ ’ہار‘ گیا اور اس شکست کے عوامل کے طور پر انہوں نے طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے معاملے پر پاکستان سے موثر انداز میں نہ نمٹنے کا ذکر کیا ہے۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے ہاؤس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے کہا: ’یہ واضح ہے۔ یہ ہم سب پر واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ ان شرائط پر ختم نہیں ہوئی، جیسا ہم چاہتے تھے۔‘

مارک ملی نے افغانستان سے امریکی فوج کے افراتفری میں کیے گئے انخلا کے بارے میں سماعت کرنے والی کمیٹی کو بتایا: ’یہ جنگ ایک سٹریٹجک ناکامی تھی۔‘

’یہ شکست پچھلے 20 دنوں یا 20 مہینوں میں نہیں ہوئی۔ یہ سٹریٹجک فیصلوں کا ایک مجموعی اثر ہے۔‘

صدر جوبائیڈن کے اعلیٰ عسکری مشیر ملی نے کہا: ’جب بھی آپ کے سامنے کوئی ایسی صورت حال ہوتی ہے، جیسے کہ ایک ہاری ہوئی جنگ اور اگرچہ ہم نے القاعدہ سے امریکہ کو بچانے کے اپنے سٹریٹجک کام کو پورا کیا ہے، لیکن یقینی طور پر نتائج اس سے بالکل مختلف ہیں، جو ہم چاہتے تھے۔‘

انہوں نے کہا: ’لہٰذا جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں بہت سارے عوامل ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ لگانا ہوگا۔ اس میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت سارے سبق ہیں۔‘

ملی نے افغانستان میں امریکی شکست کے سلسلے میں بہت سارے عوامل کا احاطہ کیا، جن میں 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے فوراً بعد تورا بورا میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کا ضائع ہونے والا موقع بھی شامل ہے۔

انہوں نے 2003 میں عراق پر حملے کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے دور منتقل کر دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ مارک ملی نے ’بطور (طالبان) پناہ گاہ پاکستان کے ساتھ مؤثر طریقے سے نہ نمٹنے‘ اور چند سال قبل مشیروں کو افغانستان سے نکالنے کو بھی شکست کے عوامل کے طور پر بیان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں برس اپریل میں 31 اگست تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کا حکم دیا تھا۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر مارک ملی اور جنرل کینتھ میک کینزی نے منگل کو سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر سفارش کی تھی کہ افغانستان میں تقریباً 2500 فوجیوں کو برقرار رکھا جائے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ افغانستان کے معاملے میں کیا کرنا ہے، صدر بائیڈن کو اس حوالے سے’منقسم‘ رائے ملی تھی۔

ساکی کے بقول: ’بالآخر یہ کمانڈر انچیف کا اختیار ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کریں اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب 20 سالہ جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ