پنڈورا پیپرز، آ مری جان مجھ کو دھوکہ دے

پنڈورا پیپرز کھوجنے والے سن لیں! یہاں ہم اپنے زخموں پہ مرہم لگانے کے روادار نہیں اور آپ ہیں کہ بڑی سرجری کا نسخہ تھمائے دیتے ہیں۔

پاناما اور پنڈورا کھولنے والوں نے بڑی دقت اٹھائی تھی، یہ ہم سے پوچھ لیتے(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتی ہیں

 


درد کی معراج کیا ہے؟ اتنا پیہم ہو کہ اس کی چبھن میٹھی لگے، زخم کو سہلانے میں مزہ آئے اور سوکھ کہ کھرنڈ بن جائے تو اسے ناخن سے چھیڑنے میں تسکین ملے۔ یہ ہے درد کی کل زندگی۔

یہی معاملہ دھوکے کے ساتھ ہے۔ دھوکے کا عروج یہ ہے کہ اسے کھانے والے دھوکے پہ دھوکہ کھا کہ بھی بے مزہ نہ ہوں، ہر نئے دھوکے کے بعد اس کی طلب کچھ اور بڑھ جائے، یہ ہے دھوکے کہ کل زندگی۔

پیارا ملک اور اس کے لوگ درد کی معراج، دھوکے کا عروج اور کرپشن کی انتہا کو ایک ساتھ جی رہے ہیں مورخین ایسے دور کو قوم کا زوال کہتے ہیں۔اب ہم تئیس چوبیس کروڑ عوام تنی ہوئی رسی پہ ان تین گیندوں سے کھیل کر کیسے چلتے ہیں یہ ہمارا فن ہے۔

پاناما اور پنڈورا کھولنے والوں نے بڑی دقت اٹھائی تھی، یہ ہم سے پوچھ لیتے۔ ہم بار بار کے شکست خوردہ راہ چلتے بتا دیتے ہیں کہ وہ فلاں سوسائٹی قبضے کی ہے اس کا اربوں پتی مالک غریب کے گردے کا آپریشن کرا دیتا ہے۔

 وہ صاحب جو ہمیں وقت پہ ٹیکس دینے کی ہدایت اورخزانہ سنبھالنے کی قومی خدمت کر رہے ہیں ان کی اپنی برٹش ورجن آئی لینڈ میں چار کمپنیاں ہیں، مجبور ہیں بس ٹیکس بچانے اور مال چھپانے کے لیے بڑے لوگوں کو ایسا کرناپڑتا ہے۔ یہ دو بڑے پلازے فلاں جنرل صاحب کے ہیں، ان کی بیگم بیچاری برطانیہ میں کمپنیاں چلا کر گزر بسر کر رہی ہیں۔

 ہم چہرہ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ سیاست میں اصول اور مذاکرات کے لیے مشہور بابا کا بیٹا دو سال میں ملین ڈالرز کمپنی کا مالک کیسے بنا، ایک بہن کو بھائیوں کی جائیدادیں کیوں سنبھالنی پڑیں، ایک لیڈر کو ملے کروڑوں کے تحفے، فنڈز کیا ہوئے۔ زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ہم اپنے محسنوں کے چہرے پہچانتے ہیں، محسن جنہوں نے ہمیں درد کی دولت دی اور ہمارا اعتماد، قومی خزانہ، اداروں پہ اعتبار سب چھین لیا۔

ان میں سرکاری عہدے اور اہم پوسٹنگ کے ٹاور پہ رعونت سے کھڑے بڑے نام والے سرکاری افسر ہیں۔ کندھے اور سینے پہ حب الوطنی کے ستارے سجائے افسران ہیں۔ ان میں سیاست کے شعبدہ باز اور کاروباری دنیا کے نوسرباز ہیں۔

پاکستان کی پیدائش کے بعد سے ہی ان دھوکے بازوں کے عروج کا دور چل رہا ہے۔ اور مزہ یہ ہے کہ ٹھگوں کو ملنے والے عروج کا زوال مستقبل قریب میں بھی نظر نہیں آرہا۔

صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی نے یوں ہی مہینوں محنت کر کے، فائلیں ڈھو ڈھو کر تحقیقاتی صحافت کی۔ پاناما پیپرز، پنڈورا پیپرز کیا آپ پانڈا پیپرز لے آئیں، جب تک اس قوم کو زخم کھانے، اپنی کمائی لٹانے میں مزہ آرہا ہے اس نشے کا کوئی توڑ نہیں۔

اکثر حال مست لوگوں کے اس ملک میں پاناما کا ہنگامہ بھیج کر کیا امید لگائی تھی کہ سکینڈل میں سامنے آنے والے سینکڑوں ٹیکس چوروں، خزانے کے لٹیروں سے دو دو ہاتھ ہوگا؟ پیٹ پھاڑ کہ پائی پائی وصولیں گے۔ پھر کیا ہوا؟

پاناما کا کیس قوم کو درجن بھر نئے ہیرو اور نئے ولن دے گیا۔ نئی شہزادی، نیا غازی، قوم کا نیا وارث، نئے چور اور نئے حوالدار۔

کیس چلا، تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کا خرچہ الگ سہا مگر اب تک ایک پھوٹی کوڑی کی وصولی نہیں ہوسکی، وصول تو بعد کیا ہوتی ثابت تک نہیں ہوسکی۔

ہم اسی پہ بہل جاتے ہیں کہ نیب انجینئرز، پروفیسرز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں کو آئے روز بلا لیتا ہے، انہیں دھکے کھاتا دیکھ کہ ہم اذیت پسندوں کے سارے غم غلط ہو جاتے ہیں۔ وصولی کتنی ہوئی اس کی کسے پرواہ!

ہم درد کی لذت سے آشنا لوگ دبئی کے ہسپتال میں ماضی کے غاصب جرنیل کی بستر مرگ پہ تصویر دیکھ کر ہی صبر کر لیتے ہیں کہ اللہ کا حساب بہت کڑا ہے۔ ان سے قوم کے کھوئے وقار کا مقدمہ کون لڑے ہم بے وقار ہی بھلے۔

وہ پتھر دل قومیں اور ہوتی ہیں جہاں وزیراعظم سے سرکاری خرچ پہ منائی گئی سالگرہ کا حساب بھی لیا جاتا ہے۔ ہم تو فی الحال اپنے زخموں کی کھرنڈ سے کھیل رہے ہیں حساب پھر کبھی۔

پنڈورا پیپرز کھوجنے والے سن لیں! یہاں ہم اپنے زخموں پہ مرہم لگانے کے روادار نہیں اور آپ ہیں کہ بڑی سرجری کا نسخہ تھمائے دیتے ہیں۔

ہم ابھی جگر آزما رہے ہیں، دھوکے کھا رہے ہیں۔ ملکی مفاد کو جوتے تلے کچلنے والوں کو دل کرتا ہے بار بار موقع دیں، خزانے کی چابی ڈاکووں کو، دودھ کی رکھوالی بلے کو دیں، وطن فروشوں کو کھل کر کھیلنے دیں۔

دوست جیسے ہو مجھ کو بہلا دے

آ میری جان مجھ کو دھوکہ دے

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نہیں چاہتے کہ قوم کو پنڈورا پیپرز کی بتی کے پیچھے لگایا جائے، قوم پہلے ہی انصاف، احتساب کی موم بتی دیکھ دیکھ کہ ہیپناٹائز ہوئی بیٹھی ہے۔

کرپشن کے خلاف وہی نعرے ہیں، وہی نیب ہے، وہی سپریم کورٹ، وہی ہیرے ہیں، وہی فرشتے اور کمبخت واٹس ایپ بھی وہی ہے۔ پنڈورا سے کیا نکلے گا جو پاناما نہ نکال سکا۔

گِدھ نے سفید کالر پہنی ہو یا یونیفارم، گِدھ شیروانی پہن کہ آئے یا جبہ ہم مرنے سے پہلے ہی تیار ہیں کہ گِدھ آئے ہمیں نوچ کھائے۔ آپ کا ہے کو اتنے جتن کرتے ہیں کبھی یہ پیپر کبھی وہ پیپر۔


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ