سوات میں درختوں کو ’دہشت گردی کے دوران‘ نقصان پہنچا: رپورٹ

انکوائری کمیٹی  کی تحقیقات  مکمل ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس جگہ کی ویڈیو بنائی گئی ہے اس میں کٹے ہوئے درخت کے تنے تقریبا 10 سال پرانے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دکھایا جانے والا مقام (تصویر: ڈی ایف او آفس کالام)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے سیاحتی مقام کالام کے ماہو ڈنڈ میں واقع جنگلات کی تقریباً ایک مہینہ پہلے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو کچھ کٹے ہوئے درختوں کو دکھا کر کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ کالام کے اس جنگل میں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے بڑے درختوں کے قریب کٹے ہوئے درخت نظر آرہے ہیں جن کے ٹھونٹھ (باقیات) دیکھی جا سکتی ہیں۔ جبکہ بعض درخت تو مکمل طور پر کٹے نظر آرہے ہیں لیکن ان کے نچلے حصے زمین سے زرا اوپر تک کٹے نظر آ رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ ایک طرف حکومت بلین ٹری سونامی کے نام سے درخت لگا رہی ہے جبکہ دوسری جانب جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔

اسی ویڈیو کا وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا تھا۔

کالام کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر صادق خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس ویڈیو کا عمران خان نے نوٹس لیا اور وزیر اعٰلی نے اس معاملے کی انکوائری کرانے کے لیے محکمہ جنگلات کو ہدایت کردی ہے۔

اس ویڈیو کی انکوائری کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں محکمہ جنگلات کے ایڈیشنل سیکریٹری شفیع اللہ، کنزرویٹر خورشید علی خان، ڈی ایف او ڈیمارکیشن سوات امجد اقبال اور ڈی ایف او کوہاٹ مظہر اقبال شامل تھے۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات  مکمل ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جس جگہ کی ویڈیو ہے اس میں کٹے ہوئے درخت کے تنے تقریباً 10 سال پرانے ہیں۔

انکوائری کمیٹی کی رپورٹ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ ویڈیو میں دکھائی جانے والی جگہ اوشو علاقے کا پروٹیکٹڈ فارسٹ ہے جس میں زیادہ نقصان کمپارٹمنٹ نمبر 24 میں دکھایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تقریباً 25 سے 30 درخت ہیں جو اسی جگہ پر کاٹے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انکوائری کمیٹی کے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس جگہ کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ درخت تقریباً 10 یا 15 سال پرانے ہیں جو ممکنہ طور پر سوات میں دہشت گردی کے دوران کاٹے گئے تھے یا ان درختوں کو اسی وقت نقصان پہنچا تھا۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کچھ درختوں کے تنے اس لیے تازہ کٹے نظر آرہے ہیں کہ ممکنہ طور پر مقامی افراد نے ان سے آگ جلانے کے لیے ’دھیا‘ حاصل کر لیا ہو۔ جبکہ کٹے ہوئے درخت جن کی صرف جڑیں نظر آرہی تھیں وہ بہت پرانے اور مردہ درخت ہیں۔

’درخت کاٹنے کی خبریں اور ویڈیوز یا تو غلط فہمی کی بنیاد پر پھیلائی گئیں ہیں یا پھر محکمہ جنگلات کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔‘

رپورٹ میں کچھ تجاوزیر بھی دی گئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ بہت پرانے درخت کے ٹھونٹھ کو جڑ سے ختم کرنا چاہیے تاکہ اس قسم کی جعلی اور سنسنی خیز خبریں میڈیا کی زینت نہ بنیں جبکہ تمام خشک درختوں کو تمام قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ختم کرنا چاہیے۔

ڈی ایف او کالام محمد صادق نے بتایا کہ اس قسم کے سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ویڈیوز سے حکومتی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے جس طرح اس کیس میں ہوگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اس جگہ کی ویڈیو تقریبا ہر سال سوشل میڈیا پر سامنے آجاتی ہے اور ہمیں اس کی انکوائری کا کہا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’محکمہ جنگلات نے اس انکوائری پر اتنے وسائل ضائع کیے اور آخر میں یہی بات سامنے آگئی کہ یہ درخت ایک دہائی پہلے کاٹی گئے ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان