کیچ واقعہ: ہائی کورٹ کے حکم پر ایف سی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

بلوچستان ہائی کورٹ نے ہوشاب واقعے میں غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر کیچ، اسسٹنٹ کمشنر اور نائب تحصیلدار لیویز ہوشاب کو معطل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان افسران کے خلاف نااہلی پر مبنی انکوائری کی جائے۔

کیچ واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیے بیٹھے ہیں  (تصویر: ماہ رنگ بلوچ)

بلوچستان ہائی کورٹ نے ہوشاب واقعے میں غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر کیچ، اسسٹنٹ کمشنر اور نائب تحصیلدار لیویز ہوشاب کو معطل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان افسران کے خلاف نااہلی پر مبنی انکوائری کی جائے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرائم برانچ میں بچوں کے لواحقین کی مدعیت میں ایف سی ( فرنیٹئر کور) اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش کی جائے۔

جس کے بعد اب اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ہوشاپ لواحقین کی طویل جدوجہد کے بعد ایف سی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر خلاف درج کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ بچوں کے لواحقین بچوں کی تدفین کر دیں، بلوچستان حکومت زخمی بچے کے طبی اخراجات فوری طور پر لیاقت نیشنل ہسپتال کو فراہم کرے اور بچوں کو ’شہید‘ قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب میں دس اکتوبر کی صبح گھر کے قریب کھیلنے والے دو بچے دھماکے کے بعد ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔

لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے گھر کے ’قریب ایف سی کی چوکی سے مارٹر گولہ فائر ہوا جس کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکت ہوئی۔‘

واقعے کے خلاف لواحقین اور سول سوسائٹی سمیت سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے تربت میں شہید فدا چوک پر بچوں کی میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا اور دو روز بعد لواحقین نے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

بعد میں لواحقین نے 13 اکتوبر کو تربت سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا آغاز کیا تو انہیں ہوشاب میں سکیورٹی فورسز نے کئی گھنٹوں تک  روکے رکھا جس پر لواحقین نے الزام لگایا کہ انہیں میتوں کی تدفین کے لیے کہا جاتا رہا۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان نے کمشنر مکران ڈویژن کو اس حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اس واقعے میں بچے ہینڈ گرنیڈ  کے پھٹنے سے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ جنہوں نے اسے کھلونا سمجھ کر کھیلنا شرو ع کیا تھا۔

تاہم زخمی بچے کے لیاقت نیشنل ہسپتال میں معائنے کے بعد رپورٹ میں کہا گیا کہ بچہ مارٹر گولے کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہوا ہے۔

ادھر وزیرداخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’معصوم بچوں کی لاشوں پر سیاست کی جا رہی ہے۔‘

ضیااللہ لانگو کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہا کہ دھرنے کے شرکا کے جائز مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن پوسٹ مارٹم کے حوالے سے تعاون نہیں کیا جا رہا۔ سیاسی جماعتوں کے ذاتی مفادات کو ریاست تسلیم نہیں کرے گی۔

اس کے جواب میں لواحقین نے دھرنے کے مقام سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت صرف باتیں کر رہی ہے۔ کسی سیاسی تنظیم کے کہنے پر کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لواحقین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مطالبات ہیں کہ ایف سی کو بلوچستان سے نکالا جائے، ڈی سی کیچ کے خلاف کارروائی کی جائے، حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رویے اور اختیارات سے واضح ہوچکا ہے کہ وہ مقدمہ درج نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ’جب کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں جب مذاکراتی ٹیم ہمارے پاس آئی تو انہوں نے کوشش کہ ہم اپنے مطالبات میں ایف آئی آر والے نکات نکال دیں، جس پر مذاکرات ناکام  ہوگئے۔‘

اس واقعے کے خلاف 17 اکتوبر کو کوئٹہ سمیت کراچی، گوادر اور تربت میں ریلیاں بھی نکالی گئیں اور حکام سے مطالبات منظور کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ادھر دھرنے میں شامل ایک خاتون ماہ رنگ بلوچ نے انڈپیںڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کا ہمیں بتایا گیا ہے تاہم جب تک مقدمے کا اندراج نہیں ہوتا ہم دھرنا ختم نہیں کریں گے۔

ماہ رنگ نے کہا کہ لواحقین کے لائحہ عمل کے حوالے سے ہم آج رات پریس کانفرنس کریں گے۔

جہاں ایک طرف کوئٹہ میں دھرنا جاری رہا اور دو بچوں کی میتوں کے ہمراہ لواحقین بیٹھے ہیں، دوسری جانب گوادر میں حکومت بلوچستان کی جانب سے جیپ ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے۔

جیپ ریلی  اور سانحہ ہوشاب میں بچوں کی ہلاکت کے خلاف گوادر کو حق دو کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہوشاب کے متاثرین کی داد رسی کرنے کے بجائے جیپ ریلی کے انعقاد پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر ریلی کے حوالے سے ایک ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس ریس میں شامل تمام افراد کو’بیٹ آف لک۔‘

اس ٹویٹ پر نہ صرف صارفین نے جام کمال کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر اور گورنر ہاؤس کے قریب لاشوں کے ساتھ بیٹھے لوگوں کا کچھ کریں۔

ایک صارف عندلیب گچکی نے جام کمال کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ جو ریس میں حصہ لے رہے ہیں یا حصہ لیا ہے، کیا بلوچستانی ہیں؟‘

ایک اور صارف سفر خان حسن زئی نے کہا کہ ’واہ جام صاحب واہ گوادر ریلی کے لیے آپ کے پاس الفاظ ہیں، مگر ان غریب لاچار بچوں کی لاشوں کے ساتھ سردی میں زرغون روڈ پر انصاف کے لیے بیٹھے لوگوں کے لیے ہمدری کا ایک لفظ نہیں۔‘

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی تربت کےعلاقے آبسر میں مبینہ فائرنگ سے ایک خاتون تاج بی بی ہلاک ہو گئی تھیں۔ جن کے لواحقین نے بھی ایف سی پر فائرنگ کا الزام لگایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان